شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ “عالم مثال” اور جدید فزکس
یاسر ندیم الواجدی
یہ سطور ان لوگوں کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوں گی جن کو علم الکلام کے نئے گوشوں کو دریافت کرنے میں دلچسپی ہے۔ علم کلام میں ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جہاں وجود باری کی دلیل کے ضمن میں کائنات کی تخلیق اور عالم کے حادث یعنی وجود پذیر ہونے سے بحث کی جاتی ہے۔ عالم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اعیان (مادہ) اور اعراض (انرجی) کا مجموعہ ہے۔ علم کلام کا یہ حصہ دراصل فزکس اور کاسمولوجی (علم تخلیق کائنات) سے متعلق ہے۔
شرح عقائد کی تدریس کے دوران ہم نے جدید سائنس کی، اس حوالے سے نئی تھیوریز پڑھائیں تو کچھ حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ جدید سائنس سے اگر آپ یہ دریافت کریں کہ کائنات کن چیزوں سے مل کر بنی ہے، تو اس کا جواب ہوگا کہ کائنات تین چیزوں یعنی نظر آنے والا مادہ، ڈارک میٹر (سیاہ مادہ) اور انرجی سے مل کر بنی ہے۔ قدیم علم طبیعیات کے مطابق کائنات میں صرف نظر آنے والا مادہ اور انرجی ہی ہے، ڈارک میٹر کا تصور نیا ہے۔ 1930 میں پہلی بار فِرٹز زویکی نے ڈارک میٹر کا تصور پیش کیا، جس کو 1980 تک تمام ماہرین فزکس نے قبول کرلیا۔ اسی تصور کی بنیاد پر امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی کے فاضل ہیو ایوریٹ نے 1954 میں “متعدد کائنات” کا نظریہ پیش کیا کہ کائنات اکلوتی نہیں ہے بلکہ ہماری کائنات کے علاوہ بھی دیگر کائنات ہیں۔ چنانچہ ماہرین طبیعیات اس نظریے کی تحقیق پر جٹ گئے، یہاں تک کہ 2012 تک یہ بات قبول عام حاصل کرگئی کہ ہماری کائنات کے علاوہ ایک اور کائنات ہے جس کو پیرالل یونیورس (مساوی کائنات)، شیڈو یونیورس (ظلی کائنات) یا مِرر یونیورس (آئینہ کائنات) کہا جاسکتا ہے، جو اسی ڈارک میٹر سے بنی ہے اور جس کی دو خصوصیات ہیں:
1- مساوی کائنات میں ہماری کائنات کے ہر جسم کی ایک کاپی ہے، وہاں اِس کائنات میں موجود ہر شخص کا ایک مثالی شخص ہے۔
2- وہاں ٹائم الٹا چلتا ہے۔ یعنی ہمارا مستقبل وہاں ماضی ہے اور ہمارا ماضی وہاں مستقبل ہے۔ گویا یہاں کا شخص جو کام مستقبل میں کرے گا، وہاں اس کی مثال وہی کام کرچکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئنسٹائن کے نظریہ کے مطابق زمان ومکان، لمبائی چوڑائی اور گہرائی کی طرح ایک ڈائمینش یعنی بُعد ہیں، لہذا وقت کی کوئی ایک سمت نہیں ہے، جس طرح دیگر ابعاد کی کوئی خاص سمت نہیں ہے۔ جب تیرہ ارب سال پہلے بینگ بینگ ہوا اور مادے سے کائنات پھٹی تو وہ دو مخالف سمت میں پھیلی۔ ایک سمت میں ہم ہیں اور دوسری سمت میں مساوی کائنات۔ وقت کے بلا سمت ہونے اور کائناتوں کے دوسمتی ہونے کی وجہ سے، ایک کائنات میں وقت سیدھا چلا اور دوسری میں الٹا۔ اسی لیے ایک کا ماضی دوسرے کا مستقبل ہے۔ اس تصور کے تحت لمبی چوڑی تفصیلات ہیں جن سے یہاں صرف نظر کیا جاتا ہے۔
ماہرین طبیعیات ایک مثال سے اس تصور کو سمجھاتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور اسے یہ خیال آتا ہے کہ یہ واقعہ تو پہلے رونما ہوچکا ہے، یہ میرے ساتھ دوبارہ کیسے ہورہا ہے؟ سائیکالوجی اور فزکس کی اصطلاح میں اس کیفیت کو “ڈی جا وو” کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا ایک نظریہ یہ ہے کہ ہماری کائنات کے انسان اور مساوی کائنات میں اس کی مثال کے درمیان گہرا ربط ہے، جس کا اظہار کبھی کبھی ہوجاتا ہے۔ یہاں کے انسان کا مستقبل چونکہ وہاں کی مثال کا ماضی ہے، لہذا آپ کو کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میرے ساتھ جو واقعہ رونما ہورہا ہے وہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔ دوسری مثال یہ ہے کہ ہم خواب میں بعض مرتبہ ایسے افراد سے ملتے ہیں جن کو کبھی ہم نے نہیں دیکھا، یا ہم خواب میں کبھی کبھار مستقبل میں ہونے والے واقعات دیکھ لیتے ہیں، یہ سب اسی مساوی کائنات سے ہمارے تعلق کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اب آئیے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شاہکار کتاب حجة الله البالغه میں پیش کردہ نظریہ عالم مثال کو سمجھتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب سے پہلے اس نظریہ کو کسی محدث، مفسر اور متکلم نے پیش نہیں کیا ہے۔ شاہ صاحب نے انیس احادیث کے ذریعے اس نظریے کو ثابت کیا ہے۔ ان کے اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ:
1- کائنات میں ایک ایسا عالم بھی پایا جاتا ہے جو غیر مادی ہے۔ (چونکہ ماضی قریب تک بھی ڈارک میٹر کا ثبوت نہیں تھا، اور مادہ وہی سمجھا جاتا تھا جو نظر آسکتا ہو، اس لیے شاہ صاحب نے عالم مثال کو غیر مادی کہا ہے)۔
2- اُس عالم میں معانی یعنی حقائق کے لیے بھی جسم ہیں (ظاہر ہے کہ جسم مادی ہی ہوتا ہے، مگر نظر نہ آنے کی بنا پر وہ ڈارک میٹر ہی ہوسکتا ہے)۔ یہ اجسام مثالی ہیں، ہر معنی کو اس کی حالت کا لحاظ کرتے ہوے جسم دیا جاتا ہے، جیسے بزدلی کو خرگوش کا اور دنیا کو بوڑھی عورت کا۔
3- اِس دنیا میں چیزیں پائے جانے سے پہلے عالم مثال میں پائی جاتی ہیں. ( اوپر ہم لکھ چکے ہیں کہ جدید فزکس نے اب جاکر یہ تصور دیا ہے کہ ہمارا مستقبل مساوی کائنات کا ماضی ہوتا ہے اور جو چیز یہاں اب ہوتی ہے وہ وہاں پہلے ہوچکی ہے)۔
4- پھر جب وہ چیزیں اِس دنیا میں یعنی خارج میں پائی جاتی ہیں، تو یہ اور وہ ایک ہوتی ہیں۔ رہی یہ بات کہ اتحاد کی کیا نوعیت ہے، تو اس کی تعیین مشکل ہے۔ (مفتی سعید پالنپوری، کامل برہان الہی تبیین حجت اللہ البالغہ ج:1 ص: 140)۔ اوپر “ڈج جا وو” کی مثال میں فزکس کے ماہرین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ انسان اور مساوی کائنات میں اس کی مثال کے درمیان گہرا ربط ہے۔
حضرت شاہ صاحب نے عالم مثال پر دلالت کرنے والی انیس احادیث پیش کی ہیں جن میں مختلف حقائق کے لیے اجسام کا ذکر ہے، جیسے موت کے لیے دنبے کا اور علم کے لیے دودھ کا، پھر فرمایا ہے کہ: “ان روایات میں غور کرنے کا افضل طریقہ یہ ہے کہ ان کو ظاہر پر محمول کیا جائے، یعنی جو کچھ بھی ظاہری طور پر مفہوم نکلتا ہے اس کو مان لیا جائے۔ اس صورت میں عالم مثال کو ماننا پڑے گا”۔ (کامل برہان الہی، ج:1 ص: 145)
حضرت شاہ صاحب عالم مثال کی بات آج سے تقریباً ڈھائی سو سال پہلے کررہے ہیں اور کم وبیش انھی تفصیلات کے ساتھ اس نظریے کو پیش فرما رہے ہیں، جن تفصیلات کے ساتھ جدید فزکس کے ماہرین مساوی کائنات کا نظریہ پیش کررہے ہیں۔ بلکہ یہ بات بھی باعث حیرت ہے کہ فزکس کے ماہرین نے مساوی کائنات کے لیے جو دیگر دو نام تجویز کیے ہیں ان میں سے ایک: ظلی کائنات اور دوسرا آئینہ کائنات ہے۔ یہ دونوں نام شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے تجویز کردہ نام عالم مثال سے کتنے قریب ہیں، یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے۔
جدید فزکس کی روشنی میں علم کلام کو اگر پڑھایا جائے تو کہیں کہیں تھوڑا بہت ایڈجسٹ ضرور کرنا پڑتا ہے، لیکن قدم قدم پر متکلمین اسلام کے لیے داد تحسین دینے کو دل چاہتا ہے کہ انھوں نے صدیوں پہلے وہ سوچ لیا، جو نئی روشنی میں نہایا ہوا یورپ اس صدی میں سوچ رہا ہے۔