مہدی حسن سے ایک ملاقات
یاسر ندیم الواجدی
آج شکاگو میں انڈین امیریکن مسلم ایسوسی ایشن کے ایک پروگرام میں شرکت ہوئی۔ یہ تنظیم گزشتہ سترہ سالوں سے بھارتی مسلمانوں کے لیے امن وانصاف کے تعلق سے واشنگٹن کے سیاسی گلیاروں میں لابینگ کا کام کرتی ہے۔ تنظیم اگرچہ مسلمانوں کی ہے لیکن بہت سے سیکیولر ہندو بھی ساتھ میں شامل ہیں، جن میں صحافی اور انسانی حقوق کے میدان میں کام کرنے والے اجیت ساہی کا نام بھی ہے جو واشنگٹن میں رہ کر امریکی انتظامیہ کو بھارتی امور سے باخبر رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ چند روز پہلے امریکی کانگریس میں کشمیر سے متعلق سماعت میں بہت سے ممبران کانگریس نے کشمیر کے حالات پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا اور حکومتی اقدامات کی مذمت کی تھی، وہ انھی کی لابینگ کا نتیجہ تھا۔
اس تنظیم کے پروگرام سے الجزیرہ ٹی وی کے مشہور صحافی مہدی حسن نے بھی اپنا پرجوش خطاب کیا، جس میں انھوں نے این آر سی، قضیہ کشمیر، ماب لنچنگ اور بابری مسجد پر گفتگو کرتے ہوے آر ایس ایس کے فسطائی نظریات سے پردہ اٹھایا۔ پروگرام سے پہلے مہدی حسن سے ہماری ملاقات ہوئی، تو ہم نے ان کی توجہ، بھارت میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فسطائیت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے ہونے والی غیر قانونی گرفتاریوں کی طرف دلائی اور ان سے علی سہراب کی حالیہ گرفتاری کی مثال دیتے ہوے گزارش کی کہ وہ الجزیرہ چینل پر اپنے پروگرام میں اس مسئلہ کو ضرور اٹھائیں، جس کا انھوں نے وعدہ کیا۔
امریکہ میں آر ایس ایس کے مفادات کے تحفظ کے لیے بھی ایک تنظیم قائم ہے جس کا سالانہ بجٹ اسی لاکھ ڈالر سے متجاوز ہے۔ جب کہ انڈین امیریکن مسلم ایسوسی ایشن، بھارتی امور کے حوالے سے امریکہ کی واحد تنظیم ہے اور اس کا سالانہ بجٹ محض تین لاکھ ڈالر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس وسائل کی کمی ہے، بلکہ ان وسائل کو صحیح استعمال کرنے کا اجتماعی شعور ان میں موجود نہیں ہے، اسی لیے بہت سے محاذوں پر وہ پالیسی سازی میں کردار ادا نہیں کرپاتے۔