اسلام اور علم نفس
یاسر ندیم الواجدی
مندرجہ ذیل سطور شاید کچھ لوگوں کے لیے خشک ہوں، لیکن میں امید کرتا ہوں کہ اس صحرا کو آخر تک عبور کرجانے والے باہمت وباتوفیق قارئین موجودہ دور میں فکر اسلامی کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کے ایک اہم عنوان کو پرکھ سکیں گے۔ ہمارے فضلائے مدارس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کن موضوعات پر اس دور میں عالمی سطح پر مکالمہ چل رہا ہے۔
بیس اکتوبر سنہ دو ہزار انیس کو “اویکننگ دی اسلامک اسپرٹ” کے عنوان سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے ایک پینل ڈسکشن میں اسلام اور علم نفس پر کچھ گفتگو کا موقع ملا۔ یہ موضوع دور حاضر میں اس اعتبار سے حساس ہے کہ مادی اور مشینی زندگی نے انسانی رویوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب خاندانی جھگڑوں جیسی وجوہات کی بنا پر ہی انسان ڈپریشن کا شکار ہوتا تھا، لیکن اب اسکول کے دور سے ہی بچہ تعلیم اور بہترین کارکردگی دکھلانے کی توقعات کے نتیجے میں ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو اس دباؤ کے نتیجے میں خود کشی کرلیتے ہیں۔ تعلیم کے دن ہنستے کھیلتے گزرگئے، تو فکر معاش نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے۔ آگے بڑھے تو پیشہ ورانہ رقابتیں، گھریلو بے سکونی اور امن عامہ جیسی صورت حال انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ ایک دینی درسگاہ کے طالب علم کی، والدین کے جھگڑوں کی وجہ سے یہ ذہنی کیفیت ہے کہ وہ تشکیک کا شکار ہوکر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ مغربی دنیا میں کیا بچے کیا بوڑھے، ہر طبقے کے لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہیں، سخت غصہ، شکست خوردگی، حسد اور خوف جیسی کیفیات عام ہیں۔ اس لیے اس تعلق سے اسلامی ہدایات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق انسان کو مختلف مصائب اور مشکلات کے نتیجے میں، ڈپریشن (ذہنی دباؤ) یا اینگزائٹی (شدید تشویش اور اضطراب) میں سے کوئی ایک یا دونوں ہوسکتے ہیں۔ ڈپریشن کی یوں تو سات اقسام ہیں، لیکن ان میں “میجر ڈپریسیو ڈس آرڈر” جس میں غم، احساس کمتری، احساس جرم، جھنجھلاہٹ، بے توجہی جیسی کیفیات انسان کو ہوتی ہیں۔ دوسری قسم “بائی پولر ڈپریشن” ہے، جس میں جسم میں کسی بھی جگہ بلاوجہ درد، مزاج میں چڑچڑاپن حتی کہ خودکشی کی خواہش جیسی کیفیات سے انسان دوچار ہوتا ہے۔ ڈپریشن انسان کی قوت فیصلہ پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کو مناسب علاج نہ ملنے کی صورت میں ختم کرکے رکھ دیتا ہے۔ اینگزائٹی (جس کو اردو میں سخت تشویش اور اضطراب کہا جاتا ہے) مستقبل کے کسی خطرے یا غم اور فکر کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوسکتی ہے۔ یہ انسان کے فیصلے کی قوت پر اثر انداز نہیں ہوتی، البتہ اس کے مزاج اور اس کی جسمانی صحت پر اثر ڈال سکتی ہے، حضرت یعقوب علیہ السلام اسی غم کے نتیجے میں نابینا ہوگئے تھے۔ (یہ واضح رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو بتقاضائے بشریت غم، فکر اور اندیشے لاحق ہوسکتے ہیں مگر انھیں ڈپریشن نہیں ہوسکتا)۔
ایک زمانہ تھا جب میڈیکل سائنس کی رو سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسان کے جسم میں چار مائعات ہیں: سوداء، صفراء، بلغم اور خون۔ ان چاروں کے معتدل رہنے سے انسانی مزاج بھی معتدل رہتا ہے۔ لیکن جدید میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسان کے جسم میں ساٹھ مختلف کیمیکلز ہیں جن کی بے اعتدالی سے انسانی مزاج اور صحت متاثر ہوتے ہیں۔ یوں تو یہ کیمیکلز انسانی دماغ میں پھیلے ہوے ہیں، لیکن دماغ کے اگلے حصے میں موجود کیمیکلز میں جتنی حرکت ہوگی، اتنا ہی انسان جذباتی ہوگا اور جس قدر حرکت میں کمی ہوگی اتنا ہی اس کے منفی جذبات میں کمی آئے گی۔ بہت سے ماہرین نفسیات کے نزدیک ذہنی تناؤ اور اضطرابی کیفیت کا سبب کیوں کہ کیمیکلز کی بے اعتدالی ہے، اس لیے علاج بھی کیمیکلز ہی ہیں، یعنی اس کیفیت کو دواوں کے ذریعے ہی درست کیا جاسکتا ہے۔ ان کے نزدیک جس طرح شوگر کے مرض کا علاج دعا درود نہیں ہے، ایسے ہی ذہنی امراض کا علاج بھی دعا وذکر نہیں ہیں۔ لہذا ایسی دوائیں تجویز کی جاتی ہیں جو انسان کے دماغ کے اگلے حصہ پر اثر کرتی ہیں اور وہاں چل رہی ہلچل میں کمی لاتی ہیں، جس کے نتیجے میں انسان زیادہ سوتا ہے اور جذباتی ردعمل سے محفوظ رہتا ہے۔ منشیات اور شراب کا اثر بھی براہ راست دماغ کے اسی حصے پر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشکلات سے دوچار بہت سے لوگ شراب اور منشیات میں وقتی سکون پاکر ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔ دواوں کے ذریعے علاج بھی صد فیصد کامیاب نہیں ہے اگرچہ ماہرین نفسیات اس کو مشکل سے ہی تسلیم کرتے ہیں۔ لہذا “ایرن بیک” نامی ماہر نفسیات نے 1960 میں “کاگنیٹیو بہیویرل تھیرپی” کے نام سے دواوں کے بغیر ایک علاج دریافت کیا۔ یہ تھیرپی ایک مکمل کورس ہے، جس کا پہلا مرحلہ ہے “سیلف اویرنس” یعنی اپنی حیثیت کی پہچان۔ اس مرحلے میں مریض کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ اس کی عملی زندگی، گھریلو زندگی یا معاشرتی اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے۔ جب وہ اس سبق کو ذہن نشین کرلیتا ہے تو اس کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنی مصیبت میں اکیلا نہیں ہے، اس جیسے بہت سے لوگ ہیں جو اسی طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔ پھر اگلے مرحلے میں اس کے ذہن میں اچھے خیالات ڈالے جاتے ہیں اور وہ برے خیالات کی جگہ لے لیتے ہیں۔ یہ تھیرپی کہنے کو تو ایک مختصر اور آسان عمل ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک طویل المیعاد اور تکنیکی عمل ہے۔ مغربی ماہرین نفسیات نے اس تھیرپی کو اختیار کرلیا ہے اور یہ عمل ان کے نزدیک مغرب کا قابل فخر کارنامہ ہے۔
لیکن پھر ہوا یوں کہ چند سال پہلے اسطنبول سے سنہ 850 عیسوی میں پیدا ہونے والے خراسانی عالم دین متکلم اور فقیہ ابو زید بلخی کا ایک مخطوطہ جس کا عنوان تھا “مصالح الأبدان والأنفس” برآمد ہوگیا جس کے چوتھے باب میں امام بلخی نے ڈپریشن اور اینگزائٹی پر اتنا تفصیلی کلام کیا ہے کہ مغرب کو اس بات کا اعتراف کرنے میں کئی سال لگے کہ اس کے پیش کردہ طریقہائے علاج کو مختلف عنوانات سے ابو زید بلخی بہت پہلے ہی ذکر کرچکے ہیں۔ “کاگنیٹیو بہیویرل تھیرپی” بھی امام بلخی کے یہاں ملتی ہے، جس کو وہ مراقبہ کا نام دیتے ہیں۔ وہ روحانی ترقی کو بھی ذہنی امراض سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مغربی ممالک کے بہت سے ماہرین نفسیات نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ روحانیت ذہنی دباؤ سے نکلنے کا ذریعہ ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سفید فام لوگ روحانیت کی تلاش میں بدھ ازم یا ہندو ازم اختیار کرکے تپسیا اور یوگا میں سکون تلاش کررہے ہیں۔ وہ لوگ جوق در جوق مشرقی ممالک کا قصد کررہے ہیں اور آشرموں میں وقت گزار کر ذہنی امراض سے شفاء کے حصول میں سرگرداں ہیں۔ افسوس کہ انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اسلام کے آغوش میں جو سکون ہے وہ کہیں اور میسر نہیں ہے۔
ڈپریشن اور اینگزائٹی جیسی کیفیات کا ابتدائی علاج یہ ہے کہ انسان روحانیت کی طرف توجہ دے اور اللہ کی طرف زیادہ سے زیادہ لو لگائے۔ قرآن نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کردیا ہے کہ “ألا بذكر الله تطمئن القلوب”۔ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون پہنچتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مراقبے، کاگنیٹیو بہیویرل تھیرپی یا کاونسلنگ (کسی دانا شخص سے گفتگو) سے مدد لے۔ ان سب سے اگر کام نہ چلتا ہو تو دواوں کے ذریعے علاج کو اختیار کرے۔ اذکار و دعائیں اس سلسلے میں کتنی مفید ہوسکتی ہیں اس کا اندازہ مندرجہ ذیل دعا سے لگائیے۔
اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجَلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي.
اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا اور بندی کا بیٹا ہوں۔ (کاگنیٹیو بہیویرل تھیرپی کا پہلا مرحلہ اپنی حیثیت کی پہچان ہے۔ اس دعا کا آغاز ہی انسانی حیثیت کی نشان دہی سے ہوا ہے، کہ اس کی پہچان خدا کی بندگی ہے)۔
میری پیشانی تیرے قبضہ میں ہے (اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ انسان کے جذباتی ردعمل کا تعلق دماغ کے اگلے حصہ میں ہونے والی ہلچل سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم دعا میں اس کا اظہار کریں کہ اے اللہ تو اس حصے کا بھی مالک ہے، تو اس کی ہلچل کو قابو میں کردے)۔
تیرا حکم میرے بارے میں نافذ ہوچکا اور تیرا فیصلہ میرے بارے میں مبنی بر انصاف ہے، (کاگنیٹیو بہیویرل تھیرپی کا ایک مرحلہ یہ بھی ہے کہ انسان کو یہ یاد دلایا جائے کہ اچھا اور برا دور چلتا رہتا ہے، یہ دنیا جنت نہیں ہے، اس دعا میں یہی تعلیم ہے کہ انسان یہ یاد رکھے کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے)۔
میں تیرے تمام ناموں کے وسیلے سے دعا مانگتا ہوں کہ قرآن کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور بنادے (واضح رہے کہ قرآن بہترین ذکر ہے اور ذکر کا دل کے سکون سے بڑا گہرا تعلق ہے)۔
میرے غموں کو ختم کرنے اور میرے ذہنی تناؤ (ڈپریشن) کو دور کرنے کا سبب بنادے۔
اس دعا کے شروع میں پیشانی کا تذکرہ اور آخر میں ذکر الہی کی بدولت ڈپریشن کو دور کرنے کی التجا اور اس کی تعلیم یقینا ایک اعجاز ہے، جس کو آج کے دور میں علم النفس کے مطالعے سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
صوفیاء کے یہاں ذکر جہری میں ضربیں لگانا بھی بطور علاج ہی تصوف میں شامل کیا گیا تھا، یہ طریقہ بذات خود کبھی مقصود نہیں سمجھا گیا۔ ضربیں لگاتے وقت انسان بآسانی اپنے دل اور دماغ کے اگلے حصہ پر بوجھ محسوس کرسکتا ہے۔ اذکار کے اس انداز کا طبعی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان سے حسد، کینہ، بغض وعداوت، نفرت اور بے چینی جیسے روحانی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے اور یہی امراض دراصل جدید سائنس کے نزدیک نفسیاتی امراض ہیں جن کا تعلق دماغ کے اگلے حصہ میں ہونے والی ہلچل سے ہے۔
اس پوری تفصیل کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ روحانی شخصیات کو ڈپریشن یا اینگزائٹی نہیں ہوسکتے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان شخصیات میں ڈپریشن تو بہت شاذ و نادر پیش آتا ہے، لیکن فکرات میں غرق رہنے کی وجہ سے اینگزائٹی عام بات ہے، جو جسم پر تو اثر انداز ہوسکتی ہے، مگر ذہنی صلاحیتوں اور قوت فیصلہ پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب پہلی وحی ملی اور آپ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا، تو آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عہنا کے پاس تشریف لائے، اس وقت آپ علیہ السلام پر کپکپاہٹ طاری تھی، آپ نے فرمایا کہ “مجھے چادر اڑھاو، مجھے چادر اڑھاو”۔ یہ کپکپی ڈر کی وجہ سے نہیں تھی۔ نبوت سے سرفرازی کے بعد وحی کے تجربے سے ڈر کیسا؟ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت اس عظیم ذمے داری کو بحسن و خوبی انجام دینے کے بارے میں فکرمندی کی وجہ سے تھی۔ ماہرین نفسیات یہ ثابت کرچکے ہیں کہ فکرات کا اثر انسان کے جسم پر مختلف انداز سے پڑ سکتا ہے۔
مغربی ممالک میں علمائے کرام اس میدان میں بھی دلچسپی دکھا رہے ہیں، کیوں کہ عوام کی بڑی تعداد ڈپریشن کا شکار ہوکر ان سے رجوع کرتی ہے اور الحمد للہ شفا پاتی ہے۔ ہند وپاک کے فضلائے مدارس بھی زبان وادب جیسے مضامین میں ڈگریاں حاصل کرنے کے بجائے اس طرح کے میدانوں میں قسمت آزمائیں، اس طرح وہ لاکھوں افراد کی شرعی راہنمائی کے ساتھ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔