لبرلز کا نظریہ قربانی اور قرآنی ہرمینوٹکس

لبرلز کا نظریہ قربانی اور قرآنی ہرمینوٹکس
یاسر ندیم الواجدی

مسلم لبرلز کی تمام تر جد وجہد کا حاصل یہ ہے کہ اسلامی احکامات کو بدل کر دین کو جدید دور سے ہم آہنگ کردیا جائے، اس مقصد کے حصول کے لیے وہ مختلف شرعی احکامات کا انکار کرتے رہتے ہیں۔ عید کے موقع پر قربانی بھی انھی امور میں سے ہے، جن پر لبرلز ہمیشہ شرمندہ رہتے ہیں اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ قربانی وغیرہ دین کا حصہ نہ ہوتے۔

یہ افراد ایک خاص نظریے کو استعمال میں لاکر، احکام کو بدل دیتے ہیں۔ اس نظریے کا نام ہے ہرمینوٹکس۔ یہ نظریہ اصلا بائبل کی تشریح کے لیے وضع کیا گیا تھا، لیکن یونیورسٹی آف شکاگو کے سابق پروفیسر فضل الرحمان کے بعد اس نظریے کو تفسیر قرآن میں بھی شہرت ملی۔ آج لبرلز اپنی پسند کا دین اسی “سافٹ ویر” کو استعمال کرکے پیش کردیتے ہیں۔ واضح رہے کہ مدرسہ ڈسکورسز کے اصل رکن ابراہیم موسی متعدد مواقع پر اس نظریے کی اہمیت پر گفتگو کرچکے ہیں۔

مشہور فیمنسٹ امینہ ودود اپنی کتاب “قرآن اینڈ وومن” میں قرآنی ہرمینوٹکس کا تعارف کراتے ہوئے لکھتی ہیں کہ: “اس ماڈل کی تین بنیادیں ہیں۔ 1- وہ سیاق وپس منظر جس میں آیت نازل ہوئی۔ 2- لغت وقواعد یعنی جو کہا جارہا ہے وہ کیسے کہا جارہا ہے۔ 3- متن قرآن کا ورلڈ ویو یعنی تصور جہاں۔ فضل الرحمان کے نزدیک قرآنی آیات تاریخ کے خاص دور کے اعتبار سے نازل ہوئی ہیں، اسی لیے اس دور کے اعتبار سے کچھ تعبیرات اختیار کر لی گئیں، لیکن ان آیات میں چھپا پیغام اور روح ان تعبیرات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ دوسرے ماحول کا رہنے والا آیت کے اصل مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ماحول اور حالات کے اعتبار سے آیت کی تشریح کر سکتا ہے”۔ (امینہ ودود، قرآن اینڈ وومن، ص 4)
اس باطل نظریے کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے ایک طویل مضمون کی ضرورت ہے۔ آج کی نشست میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کیسے جدت پسندوں نے اس ماڈل کو سامنے رکھ کر قربانی کا انکار کیا ہے۔

“ویگن مسلم انیشیٹیو” کے نام سے امریکہ میں مسلم سبزی خوروں کی ایک تنظیم قائم ہوئی ہے، اس کے مطابق اسلام میں حیوانات کو مار ڈالنے جیسی “حیوانیت” کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس تنظیم کی ویب سائٹ پر ایک طویل مقالہ ہے، جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم کو اپنا بیٹا ذبح کرنے کا کبھی حکم دیا ہی نہیں تھا۔ مقالہ نگار کے مطابق بیٹے کو ذبح کرنے کا صریح حکم تو بائبل میں مذکور ہے، قرآن میں محض ایک خواب کا ذکر ہے۔ مضمون نگار اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ انبیاء کے خواب بھی حجت ہوتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے ظاہری معنی مراد ہوں۔ حضرت ابراہیم نے کمال تابعداری میں اپنے خواب کو ظاہری معنی پر ہی رکھا اور اپنے بیٹے سے مشورہ کیا۔ حضرت اسماعیل چونکہ بہت چھوٹے تھے، وہ یہ سمجھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ قرآن نے اسی کو بیان کیا ہے کہ: “فافعل ماتؤمر”۔ (آپ کو جس چیز کا حکم دیا گیا ہے وہ کرگزریے)۔ گویا یہ اللہ کی طرف سے حکم نہیں تھا بلکہ بچہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ حکم ہے اور قرآن نے اس کی سمجھ کو بیان کیا ہے۔ مقالہ نگار کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ اسی سورت میں آگے چل کر اللہ تعالی نے فرمایا “قد صدقت الرؤيا”۔ (تم نے خواب سچ کر دکھایا) لیکن صدّق کے ایک معنی سچ سمجھنا بھی ہیں۔ مقالہ نگار اس لفظ کے دوسرے معنی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ آیت کا ترجمہ یوں ہونا چاہیے کہ: “اے ابراہیم تم نے اپنے دیکھے ہوئے خواب کو حقیقی سمجھا”۔ إنا كذلك نجزي المحسنين۔ کیونکہ یہ کمال تابعداری ہے لہذا ہم اپنے محسنین کو بہترین جزا دیتے ہیں۔ “وفديناه بذبح عظيم” (ہم نے ایک عظیم ذبیحہ فدیہ دے کر بچے کو بچا لیا) کا مفہوم مضمون نگار نے یہ بیان کیا کہ وہ جانور روحانی اور غیر مادی تھا، عالم غیب سے آیا تھا، اس کو دنیا کا جانور سمجھنا غلط ہے۔ اس کے مطابق ق حضرت ابراہیم نے خواب ضرور دیکھا تھا، لیکن کمال تابعداری میں اس کے حقیقی معنی کو اختیار کیا، جبکہ کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خواب کے حقیقی معنیٰ ہی ہوں۔ حضرت یوسف نے بھی خواب دیکھا تھا کہ سورج، چاند اور گیارہ ستارے ان کو سجدہ کر رہے ہیں۔ اس خواب کے حقیقی معنی کبھی مراد نہیں لیے گئے۔ وہ آگے لکھتا ہے کہ اس پورے واقعے کی اصل روح اپنی مرغوب ترین چیز خدا کی راہ میں دینا ہے، ویسے بھی خدا تک نہ گوشت پہنچتا ہے نہ خون۔ نزول قرآن کے زمانے میں اونٹ بکریاں وغیرہ ہی انسان کا مرغوب ترین مال تھا۔ لہذا اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جانور کو ذبح کرنے کا حکم ہے تو وہ اسی زمانے کے ساتھ خاص تھا۔ آج انسان کے نزدیک مرغوب چیز اس کا پیسہ ہے، اسی لیے پیسے کی قربانی دے کر قرآن میں مذکور حضرت ابراہیم کے قصے کی روح کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔

یہاں مضمون نگار نے پہلا دجل تو یہ کیا کہ “فلما أسلما” (جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا) کا پورے مضمون میں کہیں تذکرہ نہیں کیا۔ اگر حضرت ابراہیم کے خواب کے حقیقی معنی مراد نہ ہوتے اور اللہ نے ان کو بیٹا ذبح کرنے کا کبھی حکم نہ دیا ہوتا، تو پھر سرتسلیم خم کرنے کا کیا مطلب! دوسرا دجل یہ کیا کہ حضرت ابراہیم جیسے جلیل القدر پیغمبر کی شان میں یہ کہہ کر گستاخی بھی کردی کہ انہوں نے اپنے خواب کو حقیقت سمجھا۔ اگر خواب کو حقیقت نہیں سمجھنا تھا، تو کمال تابعداری تو یہ تھی کہ اس کو حقیقت نہ سمجھا جاتا۔ اگر اللہ کی مرضی کے خلاف اس خواب کو سمجھ لیا گیا، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں اس سے بڑی کیا گستاخی ہوگی؟ اگر واقعی حضرت ابراہیم سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے تو اللہ تعالی اس پر ضرور تنبیہ کرتا، جس طرح اپنے والد کے لیے دعائے استغفار کے وعدے پر تنبیہ کی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جس عمر میں خواب دیکھا تھا وہ نبی نہیں تھے، نیز اس خواب کے حقیقی معنی (چاند اور سورج وغیرہ کا واقعتا سجدہ کرنا) انسانی اختیارات سے باہر ہونے کی وجہ سےغیرعملی تھا، اسی لیے حضرت یعقوب خواب کے اصل معنی سمجھ گئے اور انھوں نے اپنے بیٹے کو تلقین کی کہ یہ خواب بقیہ بھائیوں کو نہ بتایا جائے۔

حضرت ابراہیم کا امتحان یہ نہیں تھا کہ وہ خواب کے معنی سمجھتے ہیں یا نہیں، قرآن نے اس واقعے کو بلاء مبین (کھلا امتحان) اسی لیے کہا ہے کہ آیا وہ اپنے بیٹے کی قربانی کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر خواب کے معنی سمجھنا امتحان کا موضوع ہوتا تو حضرت ابراہیم تو مضمون نگار کی تھیوری کے مطابق العیاذ باللہ فیل ہوگئے۔

یہ دلیل بھی عجیب ہے کہ عالم غیب سے آنے والی چیز روحانی اور غیر مادی ہوگی۔ یہ اصول صرف اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے کہ وہ غیر مادی ہے۔ قرآن کے الفاظ بھی من جانب اللہ ہیں اور بولے اور لکھے جانے کی وجہ سے سنے بھی جاتے ہیں اور پڑھے بھی جاتے ہیں۔ حضرت آدم بھی عالم غیب سے اس دنیا میں آئے تھے، اس اصول کے مطابق وہ بھی روحانی اور غیر مادی ہی رہتے، نیز ان کی اولاد بھی ایسی ہی رہتی۔

لبرلز کی یہ دلیل بھی ایک مذاق ہے کہ اصل تو نیت ہے، گوشت پوست تو اللہ تک پہنچتا ہی نہیں ہے (سورہ حج آیت 37)۔ مقصد تو یہ ہے کہ مرغوب چیز اللہ کے راستے میں دی جائے۔ اگر اس جاہلانہ فلسفے کو مان لیا جائے تو سورہ حج کی آیت نمبر 36 میں اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ گوشت خود بھی کھاؤ اور غریب کو بھی کھلاؤ۔ اگر آج کے دور میں قربانی کو پیسوں سے بدل دیا جائے تو پھر شکل کچھ یوں بنے گی کہ امیر اپنی جیب سے سو روپے نکالے گا اور نیت کرے گا کہ یہ پیسے میں نے اللہ کی راہ میں دیے، اس کے بعد نوے روپے اپنی جیب میں واپس رکھے گا اور دس روپے غریب کو تھما دے گا اور اللہ سے سو روپے پر ثواب کی امید رکھے گا۔

لبرلز اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک دھوکا یوں بھی دیتے ہیں کہ وہ سورہ صافات کی آیت ‘وتركنا عليه في الآخرين” گول کرجاتے ہیں۔ آیت کا ترجمہ ہے: “اور جو لوگ بعد میں آئے، ان میں یہ روایت باقی رکھی”۔ یہاں روایت سے مراد قربانی کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔

قرآنی ہرمینوٹکس کا یہی “کمال” ہے کہ اس کے ذریعے دین کے کسی بھی حکم کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ امینہ ودود نے اپنی کتاب میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات کو ثابت کرنے کے لیے، قرآنی ہرمینوٹکس کی بنیاد پر پورا ایک چیپٹر لکھا ہے اور یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ حضرت آدم اور حوا کو ایک ساتھ پیدا کیا گیا تھا اور دونوں کو خلیفہ بنایا گیا تھا۔ اس موضوع پر ان شاء اللہ پھر کسی نشست میں جائزہ لیا جائے گا۔ اس پورے مضمون سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جس تعلیمی پروگرام میں قرآنی ہرمینوٹکس کو “نسخہ لقمانی” بناکر پیش کیا جارہا ہے، اس کے پروردہ “اگر اس سے متاثر ہوے” تو کہاں تک جاسکتے ہیں۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *