معمار الحاد “رچرڈ ڈاکنز” کی کمزور عمارت
یاسر ندیم الواجدی
تاریخی اعتبار سے الحاد عیسائیوں کا مسئلہ رہا ہے۔ عیسائیت کی فرسودہ تعلیمات کے سامنے جب فلسفے نے زور مارا تو اس دور کے نوجوان فلسفیانہ انکشافات کے گرویدہ ہوگئے اور انہوں نے عیسائیت کے طوق کو اپنے گلے سے اتار دیا۔ اسلامی تاریخ میں باطنیہ کے تعلق سے یہ بات ملتی ہے کہ انہوں نے مسلم نوجوانوں میں الحاد کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے امام غزالی کی شکل میں اس عہد کے مجدد کو بھیج کر باطنیہ کا قلع قمع فرمادیا۔ اس کے بعد الحاد نے علمی اعتبار سے ماضی قریب تک سر نہیں ابھارا تھا۔
موجودہ دور میں الحاد کی لہر نے پوری دنیا کو اپنی زد میں لیا ہوا ہے، اس کے جراثیم نے ہر مذہب کے ماننے والوں کو متاثر کیا ہے۔ بعض ممالک میں ملحدین کی تعداد مذہب پرستوں سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس لہر نے مسلم نوجوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور ایک بڑی تعداد اپنے الحاد کا اعلان کر چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر “ایکس مسلمس” (سابقہ مسلمانوں) کے بڑے بڑے گروپس کام کر رہے ہیں۔
الحاد کی اس جدید لہر میں چار مغربی مفکرین نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ رچرڈ ڈاکنز، سام ہیرس، ڈینیل ڈینیٹ اور کرسٹوفر ہچنز۔ ان چاروں مفکرین میں رچرڈ ڈاکنز کا کام سب سے زیادہ مقبول اور علمی اعتبار سے سب سے زیادہ مضبوط مانا گیا ہے۔ سن 2006 میں شائع ہونے والی اس کی کتاب The God Delusion نے شہرت و مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
ڈاکنز نے بڑی شدت کے ساتھ یہ نظریہ پیش کیا کہ مذہب تنقید سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ مذہب کے ذریعے معاشرے میں پھیلائی گئی “خرابیوں” کو اسی وقت دور کیا جا سکتا ہے جب مذہب پر باہر سے تنقید کی جائے۔ اپنے اس نظریے کو پیش کرنے کے بعد پوری کتاب میں ڈاکنز نے نہ صرف یہ کہ مذہب پر تنقید کی، بلکہ تمام مذاہب کو چند انسانوں کی بالادستی کا ذریعہ قرار دیا۔ اس نے اپنی کتاب میں چار بنیادی باتیں پیش کی ہیں۔
1- ڈاکنز نے سب سے پہلے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدا کا وجود سائنس کی روشنی میں طے کیا جانا چاہیے۔ اگر مادی ثبوتوں کے ذریعے خدا کو ثابت نہیں کیا جاسکتا تو پھر خدا محض ایک افسانوی حیثیت رکھتا ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
2- اس نے اپنی کتاب میں اس نظریے کو بھی بڑی شدومد سے پیش کیا ہے کہ مذہب اور سائنس دو متضاد چیزیں ہیں، جن میں آپس میں کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا۔ اس کے مطابق سائنس ہمیشہ اپنے آپ کو اصلاح کے لیے تیار رکھتی ہے جبکہ مذہب اپنے آپ کو قابل اصلاح نہیں سمجھتا۔
3- اس کتاب کا ایک باب ان دلائل کا جائزہ لینے کے لیے ہے جن سے خدا کا وجود اہل مذاہب ثابت کرتے آرہے ہیں۔ اس نے اس باب میں خدا کو نہ ماننے کی صورت میں تسلسل لازم آنے والی دلیل کو بھی بڑی تفصیل سے رد کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ خدا کے وجود کو غلط ثابت کرنے کے لیے اس کے پاس ڈارونزم کے علاوہ کوئی دوسری تھیوری نہیں ہے۔ وہ اپنی کتاب میں ڈارونزم کے بنیادی تصور: نیچرل سلیکشن کو ثابت کرنے کے لیے پورا زور صرف کرتا ہے۔
4- اپنی کتاب میں وہ جگہ جگہ اسلامی تعلیمات پر بھی حملے کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ جس طرح اسلام کے ابتدائی دور میں، قرآن کے “تضادات” کو دور کرنے کے لیے نسخ کے نظریے کو استعمال کیا گیا اور بہت سی آیتوں کو منسوخ قرار دے دیا گیا، آج بھی اسی نظریہ نسخ کو استعمال کرکے قرآن کی ان بہت سی آیتوں کو منسوخ قرار دے دینا چاہیے، جن سے معاشرے میں “شدت پسندی” پھیلتی ہے۔
ڈاکنز کی کتاب کے اس مختصر سے تعارف سے اتنا اندازہ تو ہو جاتا ہے کہ الحاد کے سب سے بڑے اور مضبوط معمار نے کتنی کمزور بنیادوں پر اپنی عمارت تعمیر کی ہے۔ ڈارون کا نظریہ ارتقاء الحاد کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے علماء اور فضلاء اس نظریے کی جملہ تفصیلات اور اس کے دلائل سے کماحقہٗ واقف نہیں ہیں۔ جس طرح گزرتے دور کے ساتھ فقہی مسائل اور ان کے دلائل میں اضافہ ہوتا رہا اسی طرح نئے نئے نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے علم کلام کے مباحث میں بھی اضافہ ہوتا رہا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ سو سالوں میں اس تعلق سے کوئی قابل قدر کام نہیں ہوسکا۔ چند مسلم مفکرین نے اپنی سطح پر ان مسائل کو ضرور اٹھایا اور ان کا رد بھی کیا، لیکن اب وہ رد بھی فرسودہ ہوچکا ہے۔
حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف یہ کہ علم کلام کے مباحث میں اضافہ فرمایا تھا بلکہ منطق وفلسفہ کے بعض نظریات کو بھی تبدیل کر دیاتھا۔ منطق کی بنیادی کتابیں پڑھنے والا طالب علم بھی جانتا ہے کہ مناطقہ کے یہاں نوع الانواع اور جنس الاجناس کا تذکرہ ملتا ہے۔ مثلا انسان ایک جنس ہے، اس کے اوپر جسم نامی ہے، اس کے اوپر جسم مطلق ہے اور پھر آخری جنس جس کو جنس الاجناس کہا جاتا ہے جوہر ہے۔ حضرت نانوتوی نے جوہر کے اوپر بھی ایک جنس کا اضافہ فرمایا اور اس کو جنس الاجناس قرار دیا۔ ان کے نزدیک وجود جنس الاجناس ہے نہ کہ جوہر۔ حضرت کی اس نظریاتی تبدیلی نے عقیدے کے بہت سے مباحث کو بڑے مضبوط دلائل فراہم کیے ہیں۔
الحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمارے مدارس اپنے طلبہ کو ملحدین کے پیش کردہ نئے نظریات اور ان کے دلائل سے واقف کرائیں۔ اگر نصابی کتابوں میں تبدیلی کرنا فوری طور پر ممکن نہ ہو، تو کم از کم اتنا تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ سال میں ان موضوعات پر دو یا تین محا ضرے رکھے جائیں، جو اگرچہ کافی نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی طلبہ میں اس میدان میں تیار ہونے کے لیے، شوق و جذبہ بیدار کرنے میں بہت ممد ومعاون ثابت ہوں گے۔ اس تعلق سے ہماری لاپرواہی بہت سے لوگوں کے لیے اپنے ایمان سے ہاتھ دھونے کا سبب بن سکتی ہے۔