لبرل ذہنیت کی حدیث سے دشمنی
یاسر ندیم الواجدی
بانجھ عورت یا بانجھ عقل کے عنوان سے ہماری گزشتہ پوسٹ پر ایک صاحب نے، جو بظاہر لبرلزم کے حامی لگتے ہیں، ٹویٹر پر معقل بن یسار کی مندرجہ ذیل حدیث کے تعلق سے ہماری توجیہ پر اعتراض کیا۔
عن معقل بن يسار رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنى أحببت امرأة ذات حسب ومنصب ومال إلا أنها لا تلد أفأتزوجها؟ فنهاه ثم أتاه الثانية، فقال له مثل ذلك۔
ہماری توجیہ یہ ہے کہ معقل بن یسار جس خاتون سے نکاح کرنا چاہتے تھے، وہ بچہ نہیں چاہتی تھی۔ کیوں کہ اگر ترجمہ یہ کیا جائے کہ وہ بچہ نہیں جن سکتی، تو سوال ہوگا کہ حضرت معقل کو پہلے ہی اتنا یقین کیسے تھا، جب کہ یہ بھی معلوم ہے کہ مرد بھی بانجھ ہوتے ہیں، تو کیا یہی اصول مردوں کے لیے بھی ہے۔ ہماری یہ توجیہ احادیث کے الفاظ کی بنیاد پر ہے، محض احتمال کے طور پر اختیار نہیں کی گئی۔
پوری گفتگو دیکھیے اور ملاحظہ کیجیے کہ کیسے ایک لبرل ذہن آخری حد تک یہ کوشش کرتا ہے کہ حدیث غلط ثابت ہوجائے۔ اس ذہنیت کو حدیث سے دشمنی کا نام نہیں تو اور کیا نام دیں گے۔
توصیف خان:
آپ اپنے فیسبک پوسٹ میں جوابا رقم طراز ہیں کہ وہ عورت بچہ جننا نہیں چاہتی تھی
آپ نے یہ مفہوم کس لفظ سے اخذ کیا ہے
جب برضا و رغبت عزل درست ہے تو برضا و رغبت ایسی عورت سے شادی بھی درست ہے جو بچہ جننا نہیں چاہتی بشرطیکہ عدم انجاب کا ذریعہ شرعی ہو
یاسر ندیم الواجدی:
فعل مضارع کا ترجمہ مستقل بھی ہوتا ہے۔ وہ بچہ نہیں جن سکتی ترجمہ نہیں ہوسکتا، ورنہ سوال ہوگا کہ یہ پتہ کیسے چلا۔ ترجمہ ہوگا کہ “وہ بچہ نہیں جنے گی”. یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ خود اس خاتون نے کہا ہو۔ اسی لیے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا۔ اولاد کا حصول چونکہ فطری خواہش ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ دیا۔
توصیف خان:
زمانہ قدیم میں علامات کے ذریعے امراض کا ادراک کرتے تھے مثلا حیض کا نہ آنا اس بات کی دلیل ہے کہ عورت میں توالد کی صلاحیت نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خاتون مطلقہ رہی ہوں یا بیوہ رہی ہوں
یاسر ندیم الواجدی:
یہ دونوں دلیلیں غلط ہیں۔ حیض کا کسی وجہ سے انقطاع آج بھی مانع حمل نہیں ہے۔ نیز سابقہ شوہر سے بچے نہ ہونا بھی دلیل نہیں ہے کہ اب بچے نہیں ہوں گے۔ پھر اس حدیث کوغلط ثابت کرنے کے لیے آپ اتنی دور کی کوڑیاں کیوں لائیں۔ لبرلز کے انھی عقلی گھوڑوں کے خلاف ہیں ہم۔
توصیف خان:
مفتی صاحب آپ تو دور کی کوڑی بھی نہیں لا رہے ہیں بلکہ لبرلز سے زیادہ اپنی عقل لڑا رہے ہیں لاتلد سے آپنے یہ معنی اخذ کرلیا کہ اس نے خود کہا ہو گا کہ میں بچہ نہیں جنوں گی
غضب کی دلیل ہے
یاسر ندیم الواجدی:
”وہ بچہ نہیں جنے گی” آپ بتا دیجیے کہ اس کے علاوہ کس نے کہا ہوگا؟
توصیف خان:
قدیم طب میں علامتوں سے ہی امراض کا ادراک ہوتا تھا یہ امر بدیہی ہے قدیم اطبا کی کتابیں دیکھ سکتے ہیں
یاسر ندیم الواجدی:
آپ بتائیے کہ وہ کون سی علامت تھی اور کس نے بتائی اور یقینا آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس علامت سے یقینا بچہ نہیں ہوسکتا ہوگا۔
توصیف خان:
انقطاع حیض کی بات میں نے بطور مثال پیش کی مقصود بتانا یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں علامات کے ذریعے امراض کا ادراک کیا جاتا تھا
کسی عارضہ کی وجہ سے انقطاع حیض اور مستقل حیض نہ آنے میں فرق ہے ایک متزوجہ خاتون سے بچہ پیدا نہ ہونا ممکنہ بانجھ پن کی علامت شمار ہوتا ہے
یاسر ندیم الواجدی:
متزوجہ خاتون سے پچہ پیدا نہ ہونا مرد کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے، تو حضرت معقل نے یہ بات عورت کی طرف کیسے منسوب کردی۔ نیز سب کچھ درست رہتے ہوے بچہ ہو جائے یہ بھی ضروری نہیں۔
توصیف خان:
اس خاتون کی سیرت کے تعلق سے حدیث خاموش ہے اب جو بھی وضاحت ہو گی امکانی ہوگی
ممکن ہے شوہر شادی شدہ رہا ہو اور اسے کے پاس اولاد بھی ہوں
ممکن ہے شوہر نے طلاق کے بعد شادی کرلی ہو اور اسے بچے پیدا ہو گیئے ہوں
یاسر ندیم الواجدی:
لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس عورت نے بچہ پیدا نہ کرنے کی بات کہی ہو؟؟
توصیف خان:
قدیم زمانہ میں توالد و تناسل کو باعث شرف و عزت مانا جاتا تھا اس قرائن سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس خاتون نے ایسا نہیں کہا ہوگا
دوسری بات اگر بات امکان کی ہی ہے توالزام لبرلز پر کیوں ڈالیں
یاسر ندیم الواجدی:
اس لیے الزام ڈالیں گے کہ عربیت ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ بچہ نہیں ہوسکتا اگر ترجمہ ہوتا تو حضرت معقل کہتے غير أنها لا يولد لها، غير أنها لا تقدر أن تلد وغیرہ۔ جب کہ الفاظ ہیں غير أنها لا تلد. یہ فعل معروف مضارع ہے، اس کا ترجمہ ہے: وہ بچہ نہیں جنے گی۔ نیز جب دو امکان ہوں، تو بہتر کو لیا جائے گا۔ خوامخواہ کیوں حدیث مسترد کریں۔
توصیف خان:
حضرت معقل بن یسار کو کیا کہنا چاہیئے تھا کیا نہیں چاہیئے تھا اب 1450 سال بعد آپ طے کریں گے صرف اس لیئے کہ آپ نے ایک موقف اختیار ہے اسے کسی صورت درست مان لیا جائے
اور عقل پرستی کا الزام لبرلز پر
غضب کی منطق ہے
یاسر ندیم الواجدی:
جب مجھے اختیار نہیں، تو آپ کو یہ طے کرنے کا اختیار کیسے ہے کہ جو موقف آپ کا ہے وہی درست ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ شریعت نے عقل کے استعمال سے نہیں روکا۔ عقل کو نقل پر ترجیح دینے سے روکا ہے۔ نقل کو سمجھنے کے لیے عقل کا استعمال بالکل درست ہے۔ میرے اور آپ کے درمیان یہی فرق ہے۔