یاسر ندیم الواجدی
امریکہ کے شہر ڈیلس کی ایک مسجد میں جمعہ کے وقت تقریر کے دوران الحاد پر گفتگو کرتے ہوئے جب میں نے نظریہ ارتقاء کی تردید کی اور یہ کہا کہ آج تک کسی نے ارتقاء ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، اس کے باوجود بھی لاکھوں لوگ اس سائنسی نظریے پر یقین کرتے ہیں۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ خدا کے وجود پر ایمان لاتے ہوئے اس لیے جھجک محسوس کرتے ہیں کہ خدا ان کو نظر نہیں آتا۔ جب میں نے یہ جملہ کہا تو حاضرین میں سے ایک شخص نے جس کی عمر انیس یا بیس سال رہی ہو گی تقریر میں رخنہ ڈالتے ہوئے کہا کہ میں نے ارتقاء ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے خود دیکھا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں میں نے دیکھا ہے نیز انسانیت کو سب سے پہلے ڈارون نے ارتقاء کے بارے میں نہ صرف یہ کہ بتلایا بلکہ ارتقاء ہوتے ہوئے دکھایا بھی۔ تقریر کے دوران چونکہ جواب اور جواب الجواب کی گنجائش نہیں ہوتی اس لیے میں نے اس سے کہا کہ نماز کے بعد بیٹھ کر اس موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ دوران ملاقات اس سے جب گفتگو ہوئی تو وہ کچھ اس انداز کی تھی۔
(مجیب سے مراد راقم ہے اور معترض سے مراد وہ شخص)
مجیب: قبل اس کے کہ ہم ارتقاء کے موضوع پر گفتگو کریں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم خدا کے تعلق سے کیا نظریہ رکھتے ہو؟
معترض: میں خدا کے تعلق سے کوئی نظریہ نہیں رکھتا میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ خدا موجود ہے یا نہیں۔ (مسجد میں والدین کی وجہ سے آگیا)
مجیب: خدا کے وجود میں اس شک کی وجہ کیا نظریہ ارتقاء پر تمہارا یقین ہے؟
معترض: جی ہاں میں نظریہ ارتقا پر یقین رکھتا ہوں اور اس بنیاد پر خدا کے خالق ہونے کا منکر ہوں، اب اگر خدا کو موجود مان بھی لوں تو ایسے خدا کا کیا کام کہ جس کو خالق نہیں مانا جاسکتا۔
مجیب: میرا تم سے سوال یہ ہے کہ نظریہ ارتقا ایک نظریہ ہے، کہ جس کے سچا یا جھوٹا ہونے کا احتمال موجود ہے یا پھر یہ ایک حقیقت بن چکا ہے؟
معترض: یہ ابھی تک ایک نظریہ ہے۔
مجیب: تو نظریے پر یقین کیسے کیا جاسکتا ہے جبکہ اس کے سچا یا جھوٹا ہونے کا احتمال موجود ہے۔
معترض: اس لئے کہ میں نے لیب میں ارتقاء ہوتے ہوئے خود دیکھا ہے اور جو چیز مشاہدے میں آ گئی ہو اس پر یقین کرنا چاہیے۔
مجیب: تم نے لایب میں جو کچھ دیکھا ہے اس پر ہم گفتگو بعد میں کریں گے، لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ نظریہ ارتقا کے قائلین یہ مانتے ہیں کہ کائنات کا آغاز ایک سنگل سیل (خلیہ) سے ہوا تھا۔ کیا اس سیل میں حیات تھی؟
معترض: جی ہاں اس میں حیات تھی۔
مجیب: اگر اس میں حیات تھی تو یقینا وہ بھی ارتقاء کے مرحلے سے گزرا ہوگا تو کیا تم بتا سکتے ہو کہ ارتقاء سے پہلے اس سنگل سیل کی کیا شکل تھی؟
معترض: چلیے مان لیا کہ اس سنگل سیل میں حیات نہیں تھی۔
مجیب: اگر اس میں حیات نہیں تھی تو سائنس کے مطابق ایک بے جان چیز سے جاندار چیز کا وجود میں آنا ناممکن ہے، تو پھر اس سنگل سیل سے یہ پوری کائنات اور اس کائنات میں بسنے والی مخلوقات کیسے وجود میں آئیں؟
معترض: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طویل خاموشی
مجیب: اچھا یہ بتائیے کہ ارتقاء ضرورت کی بنیاد پر ہوتا ہے یہ خواہش کی بنیاد پر۔ یعنی کسی جاندار کو، مثلا ارتقاء کے قائلین کے مطابق گھوڑے کو درختوں کے اوپر لگے ہوئے پتے کھانے تھے، تو وہ وہاں تک پہنچنے کی کوشش میں لاکھوں سال کے ارتقا کے نتیجے میں ژراف بن گیا۔ گھوڑے کا ژراف بننا ضرورت کے تحت تھا یا خواہش کے؟
معترض: ارتقاء ضرورت کے تحت ہوتا ہے نہ کہ خواہش کے۔
مجیب: اگر یہ بات ہے تو میں یہ جاننا چاہوں گا کہ زمینی اور آبی مخلوق کے آباء و اجداد کیونکہ مشترک تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پانی میں رہتے تھے یا پھر خشکی پر؟
معترض: پانی میں۔
مجیب: ہم نے سنا ہے کہ پانی میں رہنے والے ان آباواجداد کے گلپھڑے بھی تھے اور پھیپھڑے بھی تھے۔ گلپھڑے ہونے کی بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ پانی کے جانوروں کو اس کی ضرورت ہے لیکن پھیپھڑے کس ضرورت کے تحت تھے جبکہ پانی میں سانس لینا محال ہے؟
معترض: پھیپڑے ان کے پانی سے نکلنے کے بعد خشکی میں رہتے ہوئے نکلے۔
مجیب: واہ کیا کہنے! گویا لاکھوں سال تک اس مخلوق کے خشکی میں آنے کے باوجود پھیپڑے نہیں تھے، بلکہ ارتقاء کے نتیجے میں جو کہ لاکھوں سال پر محیط ہوتا ہے پھیپڑے نکلے، تو آخر اتنے عرصے تک وہ مخلوق سانس کیسے لیتی رہی؟
معترض: میں اس پر مزید تحقیق کروں گا۔
مجیب: ابھی آپ نے کہا کہ ارتقاء کا عمل ضرورت کی بنیاد پر ہوتا ہے نہ کہ خواہش کی مجھے یہ بتائیے کہ اس دنیا میں بہت سی ایسی مخلوقات ہیں جن کے کچھ اعضا یا ان کا رنگ محض زینت کے لئے ہے نہ کہ ضرورت کے لیے۔ رنگ برنگی چڑیاں اور تتلیاں اگر ارتقا کے عمل سے ہوتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہیں تو آخر ان میں یہ خوبصورتی کس ضرورت کے تحت آئی ہے؟
معترض: معلوم نہیں۔
مجیب: آخری سوال یہ کرتا ہوں کہ ڈارون کی ٹری آف لائف کے مطابق انسان اور بندر کے درمیان بھی بہت سے مراحل ہیں مثلا وہ چمپینزی بنا، پھر ارتقاء کے عمل کے نتیجے میں وہ ہوموسیپین بنا اور پھر انسان بنا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا میں چمپینزی تو باقی رہ گئے لیکن ہوموسیپین باقی نہیں ہیں۔ آس ٹری آف لائف میں بہت سی کڑیاں غائب ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
معترض: میرے علم میں نہیں ہے!
آخری بات
تم نے ابھی یہ بھی دعویٰ کیا کہ تم نے اپنی لیب میں ارتقاء کا عمل خود دیکھا ہے۔ تم نے یقینا بیکٹیریا کو اینٹی بائیوٹک دواؤں سے مس کیا ہوگا، جس سے بیکٹیریا نے ارتقاء کے عمل کے نتیجے میں نئی شکل اختیار کرلی ہوگی۔ بیالوجی اور جینیٹک سائنس کی تعلیم کے دوران لیب میں اس طرح کی بہت سی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا ارتقاء ہے جس کے پیچھے منظم پلاننگ موجود ہے، جس کے پیچھے دماغ کارفرما ہے اور یہ عمل ایک شعور کے تحت ہوتا ہے۔ اس طرح کے ارتقاء میں ہمیں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ بچے کا جوان ہونا اور پھر جوان کا بوڑھا ہونا بھی ایک ارتقائی عمل ہے اور یہ دن رات کے مشاہدے پر مبنی ہے۔ اس لیے مطلقا ارتقاء کا انکار کرنا غلط ہے، کیونکہ یہ ارتقاء خدا کے قائم کردہ نظام کے تحت واقع ہوتا ہے۔ لیکن جس ارتقاء کے تم قائل ہو وہ بغیر کسی منظم پلاننگ یا بغیر کسی شعور کے واقع ہوتا ہے۔ اس کے لیے خدا کے قائم کردہ کسی نظام کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے اور ایسا ارتقاء نہ تم نے آج تک لیب میں دیکھا ہوگا اور نہیں کبھی تم اس کا مشاہدہ کر پاو گے۔
یہ بھی یاد رکھو کہ کسی بھی نظریے کے پختہ ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس نظریے کے تحت آنے والا مکمل ڈیٹا ریسرچ کے مراحل سے گزر گیا ہو۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ انٹرنیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے مطابق 99.9% انواع حیوان کا ابھی تک مشاہدہ بھی نہیں ہو پایا ہے چہ جائے کہ ان پر ریسرچ ہو اور ان کے ارتقاء کے مراحل پر غور کیا جائے۔ جب تم لوگ ابھی تک مکمل ڈیٹا کا مطالعہ ہی نہیں کر پائے تو آخر کس بنیاد پر تم نے ڈارون کے نظریہ کو سچ مان کر اس پر یقین کر لیا؟