میرے استاذ حضرت مولانا ڈاکٹر ابواللیث قاسمی خیرآبادی۔
یاسر ندیم الواجدی
چند روز پہلے خود استاد گرامی مولانا ڈاکٹر ابو الیث خیرآبادی کے ذریعے فون پر اور پھر سوشل میڈیا پر یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ مولانا کو، ملیشیا کے صوبے پرلیس کے بادشاہ نے انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی ملیشیا میں، اپنے قائم کردہ سینٹر برائے ترویج علوم حدیث کا چیئرمین بنایا ہے۔ مولانا کے ایک شاگرد نے واٹس ایپ پر شاہی تقریب کی ایک ویڈیو بھی بھیجی جس میں بادشاہ بذات خود مولانا کی تکریم کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مولانا کی نگرانی میں یہ کوئی معمولی سینٹر قائم نہیں ہوا ہے، بلکہ علوم حدیث کی عالمی پیمانے پر، جدید مناہج کو بروئے کار لاتے ہوئے ترویج و اشاعت کا یہ ایک اہم ترین قدم ہے۔ یہ عظیم اعزاز صرف مولانا ہی کو نہیں ملا، بلکہ مجھ جیسے ان کے ہزاروں شاگردوں کے لیے بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تمام فرزندان دیوبند کے لیے ان کا یہ اعزاز قابل فخر ہے۔
علم حدیث میں دارالعلوم دیوبند کی خدمات کی ایک دنیا معترف ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ماضی قریب میں علم حدیث کو اس کے روایتی طرز پر دنیا میں جس جماعت نے زندہ رکھا وہ علمائے دیوبند اور ان کے فیض یافتگان کی ہی جماعت ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مصر کے نامور عالم دین شیخ رشید رضا تقریبا ایک صدی پہلے اس چیز کا اعتراف کر چکے ہیں۔ مولانا ڈاکٹر ابوللیث خیرآبادی جماعت دیوبند کے اسی حسین سلسلے کی ایک کڑی ہیں، جنہوں نے عربی زبان میں علوم حدیث پر بیسیوں کتابیں لکھ کر عالمی سطح پر اس مبارک فن کی عظیم خدمت انجام دی ہے۔ علم حدیث کی ستر سے زائد اصناف تو ابن صلاح نے ہی اپنے مقدمہ میں ذکر کی ہیں، ان کے بعد بھی ان اصناف میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ مولانا ابواللیث خیرآبادی کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے البعد الزماني والمكاني في علم الحديث کے عنوان سے پوری ایک صنف مدون کی ہے۔ ان کی کتاب اتجاهات في دراسات السنة تو ہر عالم کو آج کے دور میں حرز جاں بنانی چاہیے۔ اس کتاب میں مصنف نے حدیث اور علوم حدیث سے متعلق شروع سے لے کر آج تک جتنے بھی نظریات پائے جاتے ہیں ان کا جائزہ لیا ہے، منحرف نظریات کے دلائل بھی ذکر کیے ہیں اور ان کا رد بھی لکھا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں سنت نبوی کا جس انداز سے دفاع کیا ہے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ کتاب ہی مولانا کی میزان حسنات میں سب سے بھاری رہے گی۔
ملیشیا، انڈونیشیا، برونائی اور دیگر ممالک کے بڑے بڑے علماء اور مفتیان عظام مولانا ڈاکٹر ابواللیث خیر آبادی کے شاگرد اور شاگردوں کے شاگرد ہیں، لیکن اس کے باوجود مولانا کی شخصیت میں اس قدر تواضع ہے کہ بعض مرتبہ ان کی مجلس میں بیٹھ کر ایسا لگتا ہے، کہ اپنے استاد کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے کسی دوست کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کا خاص وصف یہ ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں تکلف کی دیوار کو ختم کردیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ مولانا نے مجھ سے شکایتا یہ کہا کہ آپ مجھے “حضرت حضرت” کیوں کہتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ آپ مجھے مولانا کہہ سکتے ہیں، لیکن مولانا کی یہ شکایت مجھ پر اثر نہ کرسکی اور آج بھی جب میں ان سے گفتگو کرتا ہوں تو حضرت ہی کہہ کر مخاطب ہوتا ہوں۔
ہمارے مدارس میں عام طور سے طلباء اور اساتذہ کے درمیان سوال و جواب کا رواج نہیں ہے۔ استاد درسگاہ میں آتا ہے، سبق پڑھاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی طالب علم اپنا سوال کسی پرچی پر لکھ کر استاد کی ڈیسک پر رکھ دے اور استاذ اس کا جواب دیدے۔ یونیورسٹیوں میں عام طور سے سوال و جواب کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ طلباء زیادہ سے زیادہ سوال کرتے ہیں اور اساتذہ جواب دینے میں کلفت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ میں جب مولانا ابواللیث کی کلاس میں پہنچا تو وہاں پر بھی یہی نظام رائج تھا، بلکہ سوال و جواب سے آگے بڑھ کر بحث و نقاش کا نظام قائم تھا۔ مولانا بارہا ہم سے یہ کہتے کہ مجھ سے بحث کرو اور ہم کبھی کبھار اپنی حدود سے تجاوز کرکے مولانا سے بحث کرتے، لیکن مولانا اپنی شفقتوں اور محبتوں کے ساتھ جواب دیتے رہتے۔
مولانا ابواللیث صاحب اپنی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کو جتنا وقت دیتے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا استاد یا پروفیسر اتنا وقت دیتا ہو۔ وہ اپنے طلباء کی تحریر میں موجود صرف مواد ہی چیک نہیں کرتے، بلکہ زبان و ادب کے ساتھ ساتھ اشارات ورموز بھی چیک کرتے ہیں۔ اس اضافی کام کے بدلے وہ اپنے طلبہ سے کبھی یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ ان کی خدمت کریں یا ان کا کوئی کام انجام دیں، بلکہ اپنے قریبی شاگردوں کی وقتافوقتا دعوت کرتے رہنا تو گویا ان کا روزمرہ کا معمول ہے۔ انہی مجلسوں میں مولانا اپنے شاگردوں کو اعتدال فکر و نظر کا وہ سبق پڑھا دیتے ہیں کہ جس کو ان کے شاگرد پوری زندگی یاد رکھتے ہیں۔
مجھے الحمد للہ یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے مولانا کے ساتھ بہت وقت گزارا ہے، دو ڈھائی سال کا عرصہ تو ایسا گزرا کے ہر دن مولانا کی مجلس میں کئی گھنٹے نصیب ہوتے۔ ان مجلسوں میں جہاں مولانا سے خالص علمی استفادہ ہوتا، وہیں ان کی حس مزاح سے مسکراہٹوں کا دہانہ کھل جاتا۔ ان نشستوں میں، میں نے مولانا سے جو کچھ بھی سیکھا ہے وہ یقینا میرے لیے سرمایہ حیات ہے۔ میں مرکز جمال الدین برائے علم حدیث کے چیرمین کی حیثیت سے مولانا کے انتخاب پر ان کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ طویل عرصے تک ان سے علم حدیث کی خدمت لیتا رہے۔