آئیے تاریخ بدلتے ہیں
یاسر ندیم الواجدی
چھ دسمبر 92 کے بعد دیوبند کی درودیوار پر کسی اللہ والے ایک بہت موثر پیغام لکھا تھا، جس کے نقوش اور خد و خال آج بھی ذہن میں ترو تازہ ہیں۔ “اے ایمان والوں نماز قائم کرو” حالانکہ یہ ایک آیت کا ترجمہ تھا، لیکن موقع کی مناسبت سے اتنا مؤثر تھا کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے مساجد کا رخ کیا۔ وہ مساجد جہاں چند معمر حضرات کی ایک ہی صف ہوتی تھی، وہاں جوانوں کی آمد سے کئی کئی صفیں ہونے لگیں۔ آج اس پیغام کو عام کرنے اور اس پر شدت کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنا تشخص کھودیں، وہ چاہتے ہیں کہ آپ کا امتیاز ختم ہوجائے، وہ چاہتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ لاکر، مدارس کی آزادی کو ختم کرکے، تنظیموں اور شخصیات پر پابندی لگاکر اور آپ کو مقامی باشندہ ہونے کے جھمیلوں میں پھنساکر غلام ہونے کے احساس میں گرفتار کردیا جائے۔ این ڈی ٹی وی کی ایک ڈبیٹ میں، وی ایچ پی کے ایک ترجمان نے، جب اس سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا اگر فیصلہ آپ کے حق میں آیا تو ہندو مسلم تنازعات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے، یہ جواب دیا کہ “ہماری کشمکش صرف ایک زمین کو لیکر نہیں ہے۔ یہ دو تہذیبوں کا تصادم ہے، یہ ختم ہونے والا نہیں ہے”۔ آپ جانتے ہیں کہ تہذیبوں کا تصادم ایک تہذیب کے دوسرے پر قانونی فکری اور اخلاقی طور پر غالب آنے سے ہی ہوتا ہے۔ قانونی طور پر وہ غالب آرہے ہیں۔ اخلاقی طور پر وہ غالب نہیں ہوسکتے، کہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ اور دوسری طرف اخلاقی قلاشی۔ اور فکری طور پر آپ غالب ہونے نہ دیں۔ آپ کی اپنے مذہب پر اعلانیہ ثابت قدمی، اپنے علمی ورثے پر فخر، ماضی کی تابناکی کو حال سے جوڑنے کی جد وجہد، ادنی سے ادنی تشبہ سے مکمل اجتناب، اپنے ظاہری دینی تشخص کو اپنی شخصیت کی پہچان بنانے پر اصرار اور دعوتی عمل میں تیزی اور یکسوئی آپ کو فکری طور پر مغلوب ہونے سے بچاسکتے ہیں۔
ذرا اپنے اجداد کی تاریخ کو پڑھیے! پڑھیے کہ کیسے چند غیرت مند باندیوں اور ولی صفت مردوں کی محنت سے تاتاریوں نے اسلام کے آغوش میں آکر محکوم قوم کی فکری برتری کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ تاریخ نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب ہمارے قافلے ہند کے مغربی ساحل پر اترے، تو ریتیلی زمین پر پڑے ہوے ان کے نقوش پا کی برکات ہزار سال بعد بھی آج تک چلی آتی ہیں۔ کتنے ہی ملک ایسے ہیں جہاں کی اکثریت نے چند لوگوں کی محنت سے دین الٰہی کے مضبوط قلعہ میں پناہ لینے کو ترجیح دی۔
آج دین بھی وہی ہے، قرآن بھی وہی ہے، سنتیں بھی اسی طرح محفوظ ہیں، بس ہم وہ نہیں ہیں جو ہونے چاہییں تھے۔ آپ کا سابقہ اس قوم سے پڑا ہے جس کو کسی دور میں بودھ کی “روحانیت” نے شکست دی تھی۔ شرک مزاج میں پیوست روحانیت کو غلط سمت میں موڑنے کا نام ہے، آپ اس مزاج کے سامنے صحیح سمت والی روحانیت پیش کردیجیے اور پھر دیکھیے۔ اس لیے اپنے ظاہری اور باطنی تشخص کو بچائے رکھیے، مساجد کے بام ودر سے چمٹ جائیے اور تاریخ کے دھارے کو بدلنے کے مشن میں لگ جائیے۔ میں اگر بھارت میں ہوتا تو اس موقع پر مولانا کلیم صدیقی اور جیسے حضرات کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے استفادہ ضرور کرتا۔