آریہ سماج مندر شکاگو کے آچاریہ سے مباحثہ

آریہ سماج مندر شکاگو کے آچاریہ سے مباحثہ
یاسر ندیم الواجدی

آریہ سماج کی ہندوؤں میں وہی حیثیت ہے جو مسلمانوں میں معتزلہ کی رہی ہے۔ معتزلہ بھی عقل پرست تھے اور اپنی عقل کی روشنی میں قرآن کی تشریح کرتے تھے اور اپنے علاوہ بقیہ مسلمانوں کو اسلام سے خارج سمجھتے تھے۔ آریہ سماجی بھی عقل پرست ہوتے ہیں، ویدوں کی تشریح اپنی عقل کے مطابق کرتے ہیں اور اپنے علاوہ بقیہ تمام لوگوں حتی کہ ہندوؤں کو بھی راہ راست سے بھٹکا ہوا سمجھتے ہیں۔

آریہ سماج کے فتنے نے سب سے پہلے اپنے بانی پنڈت دیانند سرسوتی کے دور میں شہرت حاصل کی تھی۔ جگہ جگہ مناظرے ہوے اور مسلمانوں نے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی قیادت میں فتح حاصل کی۔ دوسری بار انیس سو چوبیس میں اس فتنے نے سر ابھارا اور علاقے کے علاقے مرتد ہونے لگے۔ دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے فوری طور پر اساتذہ اور علیا درجات کے طلبہ کے وفود در وفود ان علاقوں میں روانہ کیے اور اس فتنے کی سرکوبی کی۔ اسی دور میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اپنی تحریروں کے ذریعے آریہ سماج کا زبردست تعاقب کیا اور مسلمانوں کو قابل اطمینان دلائل مہیا فرمادیے۔ اب تیسری مرتبہ اس فتنے نے سر ابھارا ہے۔ آریوں کا دعوا ہے کہ ہزاروں مسلمان ان کے مذہب کو قبول کرچکے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ جھوٹ ہو، لیکن جو بات سچ ہے وہ یہ کہ یوٹیوب پر ان کے مبلغین کے متعدد چینل ہیں جن کے سبسکرائبرز لاکھوں میں ہیں۔ ان چینلوں پر اسلام کے خلاف ہزار سے زیادہ ویڈیوز موجود ہیں اور ان کو دیکھنے والوں میں ایک بڑی تعداد مسلم نوجوانوں کی ہے۔ میرے پاس تقریباً ہر روز مسلم نوجوانوں کی طرف سے میسج آتے ہیں کہ وہ کنفیوژن کا شکار ہوگئے ہیں، لہذا ہم ان ویڈیوز کا جواب دیں۔ اس پس منظر کی وجہ سے الحمد للہ آریوں کے لٹریچر کے ابتدائی مطالعہ کی توفیق ہوئی۔ انیسویں صدی کے اواخر میں مسلمانوں کی طرف سے متعدد کتابیں لکھی گئیں تھی، جن سے میں نے کچھ دلائل جمع کیے، لیکن میرے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ ایک صدی کے دوران کیا آریہ سماجی ان دلائل کے جوابات تیار کرپائے ہیں۔

میں نے شکاگو میں واقع آریہ سماج مندر فون کیا اور وہاں کے پنڈت آچاریہ ہری پرساد سے گفتگو کا وقت لیا اور وقت مقررہ پر ان کے یہاں پہنچ گیا۔ آچاریہ جی اردو عربی اصطلاحات سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔ مجھے اندازہ ہوا کہ “گروکل” میں طلبہ کو مسلمانوں سے مناظروں کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔ ذیل میں، گفتگو کے کچھ اہم حصے قلم بند کیے گئے ہیں۔ اس تحریر میں سائل سے مراد میں ہوں اور مجیب سے مراد پنڈت جی۔

پہلا سوال:

سائل: کائنات کے آغاز میں چار رشیوں کو پرمیشور کی طرف سے چار وید دے گئے۔ ان چاروں کے منتخب ہونے کی وجہ کیا ہے؟

مجیب: کائنات کے پیدا ہونے اور بگڑنے کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ پچھلی مرتبہ جب یہ کائنات موجود تھی اس وقت جن چار روحوں نے سب سے زیادہ ترقی کی، انہی کو پرمیشور نے اس مرتبہ سب سے پہلے پیدا کیا اور ان کو ویدوں سے نوازا۔

سائل: جب یہ چار وید پرمیشور کی طرف سے آئے ہیں اور ان کے درمیان تقدس میں کوئی درجہ بندی بھی نہیں ہے، تو آخر پرمیشور نے ایک ہی شخص کو یہ چاروں وید کیوں نہیں دیے۔ چار لوگوں کا انتخاب کیوں کیا؟

مجیب: یہ چاروں ہی اس بات کی صلاحیت رکھتے تھے کہ ان کو وید ملے، اس لیے پرمیشور کی طرف سے چاروں لوگوں کو وید دیے گئے۔

سائل: سوال یہ ہے کہ کیا پرمیشور نے کسی پانچویں شخص پر یہ پابندی لگائی ہوئی ہے کہ وہ ان چاروں کے برابر نہیں ہو سکتا؟ اسی طرح پرمیشور نے ان چاروں میں سے ہر ایک کو چاروں وید کیوں نہیں دیے؟

مجیب: اس تعلق سے ہمارے لٹریچر میں کوئی بات نہیں ملتی ہے۔

سائل: تو آپ سیدھے سیدھے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ایشور کی مرضی تھی اس لیے اس نے چار لوگوں کا انتخاب کیا اور ہر ایک کو ایک ایک وید سے نوازا؟
(واضح رہے کہ آریا سماج خدا کی مرضی اور مشیت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک معتزلہ کی طرح خدا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عدل کرے، وہ کسی کا گناہ معاف کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا ہے)

مجیب: جی نہیں پرمیشور کی مرضی نہیں بلکہ ان چاروں رشیوں کی صلاحیت کو دیکھا گیا ہے۔

دوسرا سوال:

سائل: پنڈت دیانند سرسوتی نے لکھا ہے کہ “وید سنسکرت میں نازل کیے گئے جو کسی ملک کی زبان نہیں ہے اور وید کی زبان سب زبانوں کی ماں ہے”۔ سوال یہ ہے کہ ماہرین لسانیات کے مطابق قدیم زبانیں کل سات ہیں: چینی، ہیبرو، عربی، یونانی، لاطینی، سنسکرت اور تمل۔ کسی بھی زبان کی عمر اس میں لکھی ہوئی تحریر سے لگائی جاتی ہے۔ سنسکرت زبان میں سب سے پرانی تحریر 600 عیسوی کے قریب کی ہے۔ جب کہ تمل زبان میں قدیم ترین تحریر 25 سو قبل مسیح کی ہے، تو سنسکرت تمام زبانوں کی ماں کیسے ہوئی؟

مجیب: زبانیں صرف تحریروں کی بنیاد پر زندہ نہیں رہتیں، بلکہ سینہ بسینہ بھی منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ قرآن بھی تو شروع میں سینہ بسینہ ہی منتقل ہوا، پھر بعد میں جاکر اس کو تحریری شکل دی گئی۔

سائل: مسلمانوں کا کبھی یہ دعوی نہیں رہا کہ اسلام سے پہلے عرب مختلف علوم و فنون کے ماہر رہے ہیں۔ ان کے یہاں تو گنے چنے لوگ لکھنے والے ہوا کرتے تھے۔ لیکن سنسکرتی تہذیب کا یہ دعوی ہےکہ اس کا سائنس اور مختلف علوم و فنون کی ترقی میں بنیادی کردار ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ سنسکرت زبان کی قدیم ترین تحریر حضرت عیسی کے چھ سو سال بعد کی ہے؟

مجیب: اگر تمل سنسکرت سے پرانی ہوتی، تو وید بھی تمل میں ہونے چاہییں تھے سنسکرت میں کیوں ہیں؟

سائل: آپ کا یہ دعویٰ تو اس بنیاد پر ہے کہ وید سب سے پہلا الہام ہے۔ اور اس کی دلیل آپ نے یہ دی کہ سنسکرت سب سے پہلی زبان ہے۔ گویا آپ کا دعوی دلیل پر موقوف ہے اور دلیل دعوے پر موقوف ہے، منطقی اعتبار سے تو یہ درست نہیں ہے۔

مجیب: اب آپ کے ذکر کردہ ماہرین لسانیات کا معیار کیا ہے، پہلے اس کو دیکھنا ہوگا اور ان کے ساتھ براہ راست بات کرنی ہو گی تب جا کر ہم اس معاملے کو طے کر پائیں گے۔ ہم دوسروں کے بنائے ہوئے معیارات کے پابند نہیں ہیں۔

تیسرا سوال:

سائل: کیا ویدوں میں جنگ کا ذکر ہے؟

مجیب: نہیں!

سائل: رگ وید میں یہ منتر آیا ہے: “اے فرمانبرداروں! تمہارا اسلحہ اور تیر و تلوار مخالفوں کو مغلوب کرنے اور ان کو روکنے کے لیے قابل تعریف ہو، تمہاری فوج قابل تعریف ہو تاکہ تم لوگ ہمیشہ فتح یاب ہوتے رہو”
کیا اس منتر میں جنگ کا تذکرہ نہیں ہے؟

مجیب: جی ہاں اس منتر میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اچھائی کا ساتھ دیا جائے اور برائی کے خلاف اگر جنگ کی ضرورت ہو تو جنگ بھی کی جائے.

سائل: یہی بات تو مسلمان بھی کہتے ہیں کہ جہاد برائی کے خلاف جنگ ہے۔ پھر پنڈت دیانند سرسوتی جہاد پر تنقید کرتے ہوئے یہ کیوں کہتے ہیں کہ قرآن ایک دوسرے کو مارنے کا حکم دیتا ہے؟۔

مجیب: پنڈت جی نے کس سیاق و سباق میں یہ بات کہی ہوگی وہ بہتر جانتے ہیں، لیکن میں یہ مانتا ہوں کہ بعض مرتبہ برائی کے خلاف جنگ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔

چوتھا سوال:

سائل: آپ کے نزدیک خدا کے علاوہ دو چیزیں ازلی ہیں: مادہ اور روح۔ لہذا یہ دونوں چیزیں خدا کی مخلوق نہیں ہیں۔ ایک طرف آپ لوگ پرمیشور کو “سروشکتی مان” (قادر مطلق) کہتے ہیں، دوسری طرف دو چیزوں پر اس کی قدرت نہیں مانتے ہیں؟

(واضح رہے کہ آریہ سماج کے نزدیک کائنات ازلی ہے۔ اس نظریے کو باقی رکھنے کے لیے مادہ اور روح کا ازلی ہونا ضروری ہے۔ ان کے یہاں اسی بنیاد پر تناسخ (آواگون) کا نظریہ بھی موجود ہے)

مجیب: شکتی مان کا مطلب کیا ہے؟

سائل: طاقتور، قدرت والا۔

مجیب: ودیا مان کا مطلب؟

سائل: ویسے میں زیادہ ہندی نہیں جانتا ہوں، لیکن شاید اس کا مطلب علم والا ہے۔

مجیب: ٹھیک ہے. کتنا علم حاصل کرنے کے بعد آپ کسی شخص کو ودیا مان کہیں گے؟

سائل: ہر ایک کا الگ الگ معیار ہوسکتا ہے۔ کوئی ایک عالمی پیمانہ نہیں ہے۔

مجیب: اسی طرح قادر مطلق کا معیار آریہ سماج کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ذات جو کائنات کو بنانے میں کسی دوسرے کی مدد کی محتاج نہ ہو۔ قادر مطلق ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کو مادہ اور روح پر بھی مکمل قدرت ہو۔

سائل: تو پھر آپ نے لفظ شکتیمان سے پہلے “سرو” کیوں لگایا ہے؟

مجیب: یہ لفظ ہی تو ہمیں یہ پیمانہ بتاتا ہے۔ جیسے میں یہ کہوں کہ میں نے سب کھانا کھا لیا، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میں نے دنیا میں موجود تمام کھانا کھا لیا۔

سائل: اچھا یہ بتائیے کہ جو ذات ہر جگہ موجود ہو اس کو آپ کیا کہتے ہیں؟

مجیب: سرو ویاپک

سائل: اس اصطلاح میں بھی لفظ سرو کا استعمال ہوا ہے۔ تو کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پرمیشور کچھ جگہوں پر تو موجود ہے مگر کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں وہ موجود نہیں ہے؟

( فبہت الذی کفر۔ واضح رہے کہ آریہ سماج کا یہ عقیدہ ہے کہ پرمیشور کائنات کے ایک ایک ذرے میں حلول کیے ہوئے ہے، کائنات کے اندر یا باہر کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں خدا موجود نہ ہو)
اسی طرح اگر خدا محض اس بنیاد پر قادر مطلق کہلایا جاسکتا ہے کہ وہ بغیر کسی مدد کے پہلے سے موجود مادے سے کچھ تخلیق کرسکتا ہے، تو کمہار بھی مٹی سے بغیر کسی دوسرے شخص کی مدد کے، بہت کچھ بنا لیتا ہے، تو کیا کمہار بھی آپ کے نزدیک سرو شکتیمان ہے؟

مجیب: (ناگواری سے) یاسر جی! اگر آپ کو کمہار قادر مطلق لگتا ہوں تو آپ کہیے۔

سائل: میں نے تو آپ سے پوچھا ہے کہ کیا آپ ایک کمہار کو قادر مطلق کہہ سکتے ہیں؟

مجیب: جی ہاں میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک کمہار گھڑا بنانے میں قادر مطلق ہے.

اس طرح گفتگو ختم ہوئی۔ یہ چار ہی بنیادی سوالات تھے جن پر مختصر مباحثہ ہوا۔ میری طرف سے بقیہ سوالات مباحثے کی نوعیت کے نہیں تھے۔ اس مختصر مباحثے سے مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے اکابر نے جو لیٹریچر چھوڑا ہے، اس کا جواب آریہ سماج آج تک نہیں دے پایا ہے۔ میرے نزدیک چار پانچ ہی موضوعات ایسے ہیں، جن پر اگر مناسب مطالعہ کر لیا جائے، تو آریہ سماجیوں سے بہ آسانی گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ہمارے طلبہ مدارس اگر شرح عقائد کو حرز جاں بنا لیں تو یہ کتاب پوری زندگی ان کو فائدہ دے گی۔ اس کتاب میں “اصلح للعباد” کی بحث یہ سمجھ کر پڑھی جاتی ہے کہ اب معتزلہ کہاں زندہ ہیں اور امتحان کے لیے کچھ پرچہ سوالات حل کر لیے جاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ اس موضوع پر جو دلائل اہلسنت کی طرف سے دیے گئے ہیں، وہی دلائل آج آریہ سماج کے خلاف دیے جا سکتے ہیں۔ مباحثے کی یہ مختصر روداد اسی لیے لکھی گئی ہے، تاکہ ہمیں اس فتنے کا بروقت ادراک ہو اور ہم اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرسکیں۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *