ایک نارویجن مسلمان کے مضمون پر کچھ تاثرات

ایک نارویجن مسلمان کے مضمون پر کچھ تاثرات
یاسر ندیم الواجدی

ناروے کے ایک پاکستانی مسلم جن کا نام بھی خیر سے الیاس ہے نے ایک مضمون غازی اسلام عمر الیاس دہابہ کی مذمت میں لکھا ہے۔ ان صاحب نے “لارجر پرسپیکٹیو” کی دہائی دے کر بہت ہی چھوٹی سطح پر جاکر بات کی ہے۔ اس مضمون میں یہی دکھڑا رکھا گیا ہے کہ اگر ہم امن پسند اور قانون پر عمل کرنے والے بنیں تو مغرب میں زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ مغرب میں اظہار رائے کی آزادی نسل پرستی اور ہولوکاسٹ کے سیاق و سباق میں لا محدود نہیں ہے، لیکن اسلام کے خلاف لا محدود ہے۔ آپ ذرا نسل پرستانہ مذاق کرکے دیکھیں، قانون فورا حرکت میں آتا ہے۔ ہولوکاسٹ پر تو آپ زبان کو جنبش نہ ہی دیں تو بہتر ہے ورنہ یہود کی طبع نازک پر یہ چیز بڑی ناگوار گزرے گی اور آپ سالوں تک جیل میں سڑیں گے۔

عام طور پر جمہوریتوں میں ملکی سطح پر مکالمہ ایسے ہی واقعات کے بعد شروع ہوتا ہے بلکہ بہت سے قوانین سول نافرمانی کے بعد بدلے گئے ہیں۔ امریکی افریقی لوگوں کی پوری جد وجہد سامنے ہونی چاہیے۔ افسوس ہے کہ اس عظیم نوجوان کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے ناروے کے یہ صاحب اس کی مذمت کررہے ہیں۔

حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے جہان دیدہ اور ماہر قانون کی ٹویٹ کے بعد اب دوسرے بیانیہ کا کیا مطلب رہ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر غیرت مند نوجوانوں کی جانب سے ایسے مضامین کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *