سربراہ جمعیت کی سربراہ آر ایس ایس سے ملاقات
یاسر ندیم الواجدی
سوشل میڈیا پر آج یہ خوش کن خبر پڑھنے کو ملی کہ جمعیت علمائے ہند کے صدر حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات ہوئی ہے۔ یقینا کچھ لوگ اس ملاقات کو بھی اسی طرح متنازع بناکر پیش کریں گے، جیسے چند ہفتوں پہلے اندریش کمار کی دارالعلوم دیوبند آمد کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہم نے اس وقت بھی لکھا تھا اور آج بھی اسی موقف کو دہراتے ہیں کہ آر ایس ایس کے نظریات اسلام ومسلم مخالف ہیں، لیکن مذاکرات مخالفین سے ہی کیے جاتے ہیں، ہم خیال لوگوں سے مذاکرات یا مفاہمت کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اندریش کمار کی دیوبند آمد کے وقت جب ہم نے ایک تحریر لکھی، تو کینیڈا میں مقیم میرے ایک کرم فرما جناب ایوب خان صاحب نے ہی غالبا اس کا تذکرہ مشہور قانون داں پروفیسر فیضان مصطفی سے کیا جو اس وقت کینیڈا کے سفر پر تھے۔ لہذا پروفیسر صاحب نے مجھ سے بذریعہ فون دیر تک اس موضوع پر گفتگو کی۔ میں نے چونکہ فاشسٹ تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی، اس لیے انھوں نے میرے سامنے تین سوالات رکھے:
1- یہ مذاکرات کون کرے گا۔
2- کن موضوعات پر مذاکرات ہوں گے
3- وہ کون سے مسائل ہیں جن پر ہرگز گفتگو یا مصالحت نہیں ہوگی۔
پروفیسر فیضان مصطفی صاحب سے پہلے سوال کے جواب میں، میں نے عرض کیا کہ مسلم قیادت متحد ہوکر ہی یہ مذاکرات کرے تو کچھ نتیجہ نکل سکتا ہے، اس کے لیے فوری طور پر مولانا محمود مدنی کا نام ذہن میں آتا ہے، ہوسکتا ہے کہ مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم بھی اس کے لیے تیار ہوجائیں، تیسری شخصیت خود آپ ہیں۔( فیضان صاحب نے اس پر قہقہہ لگایا) دوسرے سوال کے جواب میں، میں عرض کیا کہ ابتدائی گفت وشنید کی بعد جب اعتماد کی فضا قائم ہو، تو آر ایس ایس سے “بھارتی کون ہے” کے عنوان پر گفتگو ہونی چاہیے، کیوں کہ آر ایس ایس کے نزدیک بھارتی ہر وہ شخص ہے، جو ایسی ثقافت کا ماننے والا ہو جو انڈس ویلی اور ہمالیہ کے درمیان پروان چڑھی ہو۔ اسلامی تہذیب کے پروردہ اس تعریف کی رو سے بھارتی نہیں رہتے۔
پروفیسر فیضان صاحب سے اس وعدے پر گفتگو ختم ہوئی کہ چند دن کے اندر اندر ان موضوعات کی ایک فہرست تیار کرکے ان کو دی جائے، جن پر گفتگو کی جانی چاہیے اور جن پر ہرگز کوئی مصالحت نہیں کی جاسکتی۔ یہ وعدہ میں ایفا نہیں کرپایا۔ اسی اثنا میں، این آر سی کے موضوع پر اپنے خدشات کو دور کرنے کے لیے، چند روز پہلے میں نے ان کو فون کیا تو انھوں نے سلام دعا کے بعد فورا وہ وعدہ یاد دلایا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر میں اپنی ناقص معلومات کی روشنی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ بھارت کے سفر کے دوران کچھ اکابر امت سے ملاقات کرکے، اس موضوع پر تبادلہ خیال ضرور کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ اب اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ ایسی کوئی گفتگو ہونی بھی چاہیے یا نہیں۔
آج جب یہ خبر پڑھی کہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی نے موہن بھاگوت سے ملاقات کی ہے، تو مولانا کی ملک وملت کے لیے اس جرات مندانہ کوشش کا کھل کر اعتراف کرنا ضروری ہوگیا۔ حالانکہ یہ ملاقات نتیجہ خیز ہوگی یا نہیں، اس تعلق سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، لیکن اگر ملی قیادت جس میں پروفیسر فیضان مصطفی جیسے ماہرین قانون بھی شامل ہوں حضرت مولانا ارشد مدنی کی زیر امامت نظریاتی مسائل پر آر ایس ایس سے باقاعدہ مذاکرات کرے، تو خواہ نتیجہ نکلے یا نہ نکلے لیکن حجت تمام ہو جائے گی اور تاریخ میں یہ درج ہوجائے گا کہ امن پسند مسلمان فسطائی طاقتوں کے ساتھ ملک وملت کی خاطر مذاکرات کرنے بھی پیچھے نہیں ہٹے، انھوں نے اس ملک میں امن وامان کو پھیلانے میں آخری درجے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود اگر ملک میں نفرتوں کا بازار گرم رہتا ہے، انسانوں کی جان کی قیمت ختم ہوتی ہے، خوف وہراس ہر جگہ پھیلتا ہے، لاشیں گرتی رہتی ہیں اور لوگ بے حسی کا شکار رہتے ہیں، شہریوں سے ان کے حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں، پوری آبادی کو ترقی کی راہ سے ہٹاکر مذہبی جنون کی آگ میں پھینک دیا جاتا ہے اور انسان کی قابلیت کے بجائے اس کی ذات یہ طے کرتی ہے کہ وہ ملک کا پہلا شہری ہے یا دوسرا، تو وقت کے ظالم اور غیر منصف مورخ کو بھی یہ لکھنے دیجیے کہ بھارت کے تیس کروڑ لوگوں نے ملک کی سالمیت کے لیے بہت کوشش کی، مگر وہ پانچ فیصد لوگ جن کا ہیڈ کوارٹر ناگپور میں تھا، اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ملک کو قربان کرگئے۔