عارف محمد خان کو جواب

عارف محمد خان کو جواب
یاسر ندیم الواجدی

عارف محمد خان ایک ایسا مسلم سنگھی چہرہ ہیں جن کے بل بوتے پر اسلاموفوبیا نے بھارت میں گزشتہ چند سالوں کے اندر خوب بال وپر نکالے ہیں۔ ان کے پاس مشہور ہونے کا وہی طریقہ ہے، جو اس وقت زرد صحافت میں سب سے زیادہ رائج ہے، یعنی اسلام کے خلاف خوب بولو، چونکہ اس موضوع کو سننے اور پڑھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

عارف خان کے بقول انھوں نے چند سال پہلے اپنے کچھ اعترضات دارالعلوم دیوبند کو روانہ کیے تھے، جن کا جواب دارالعلوم نے آج تک نہیں دیا۔ انھوں نے ہندی کے اخبار دینک جاگرن میں ادارتی صفحہ پر ایک مضمون میں وہ اعترضات دوبارہ ذکر کیے ہیں اور دیوبند کو یاد دلایا ہے کہ وہ ابھی بھی جواب کے منتظر ہیں۔ لیکن ہم عارف محمد خان کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ دیوبند کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے ایک سال قبل ہی ہم نے آپ کو اپنے آن لائن پروگرام سرجیکل اسٹرائیک میں مدعو کرکے ان تمام اعتراضات کا جواب دے دیا تھا، جو آپ اپنے مخصوص حلقوں میں ابھی تک کرتے آرہے تھے اور جن پر آپ حاضرین سے واہ واہی لوٹ رہے تھے۔ اس پروگرام کے دیکھنے والے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں، وہ ابھی بھولے نہیں ہیں کہ کیسے ہمارے جوابات سن کر آپ غصے میں آپے سے باہر ہوے جارہے تھے۔ آپ کو اگر یہ سب یاد نہ ہو تو یوٹیوب پر وہ ویڈیو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں۔

یہ اعتراضات انتظامی نوعیت کے نہیں ہیں کہ دارالعلوم دیوبند بحیثیت ادارہ ان کا جواب دے، بلکہ یہ فکری نوعیت کے ہیں، اس لیے فکر دیوبند سے وابستہ ہر شخص ان کا جواب دے سکتا ہے۔

عارف محمد خان نے اپنے مضمون میں جس تلبیس یا سوء فہمی سے کام لیا ہے وہ انھی کو زیب دیتی ہے۔ انھوں نے ہدایہ کی اردو شرح اشرف الہدایہ کو، جو دیوبند کے ایک مرحوم عالم دین مولانا جمیل احمد سکروڈوی کی لکھی ہوئی ہے، بنیاد بناکر اپنے اعترضات کیے ہیں۔ اس شرح میں ہدایہ کے ابواب السیر کے تحت، جنگ کے احکام لکھے گئے ہیں، کہ اگر مسلمان اور غیر مسلموں کے درمیان جنگ ہو تو مسلم فوج کیا رویہ اختیار کرے گی۔ شریعت کی سمجھ رکھنے والا ایک عام انسان بھی جانتا ہے کہ ابواب السیر میں انفرادی احکام بیان نہیں کیے گئے ہیں، بلکہ اسلامی فوج کی حدود وقیود کو سمجھایا گیا ہے۔ ہدایہ میں ان ابواب سے پہلے کتاب الحدود موجود ہے جس میں اسلام کے “کرمنل جسٹس سسٹم” کو بیان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا سسٹم حکومت ہی چلاسکتی ہے، کوئی فرد یا گروہ نہیں چلاسکتا۔ یہی صورت حال کتاب السیر میں مذکور مسائل کی بھی ہے، کتاب السیر کو کتاب الحدود کے فورا بعد ذکر کرنے سے یہی بیان کرنا مقصود بھی ہے۔

عارف محمد خان نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ہدایہ کے مطابق مرتد کو قتل کیا جائے گا اور دیوبند کے نزدیک قادیانی، آغاخانی اور روافض کا بھی وہی حکم ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستان کی طرح بھارت کی مساجد میں بھی قادیانیوں اور شیعوں کو بم مار کر ہلاک کردیا جائے۔

سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ مرتد کی سزا “کرمنل جسٹس سسٹم” کے تحت لکھی ہوئی ہے، یہ کام فرد یا گروہ کا نہیں ہے بلکہ حکومت کا ہے، جو مقدمہ کی روشنی میں یہ فیصلہ کرے گی کی آیا اس کا کوئی شہری ارتداد کے جرم میں ملوث ہے یا نہیں۔ آپ ارتداد کی سزا سے اختلاف کرسکتے ہیں، آپ سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے یہ اختلاف کیا ہے، لیکن مساجد میں قادیانیوں اور شیعوں کو بم مار کر ہلاک کرنے جیسا نتیجہ نکالنا اس بات کی دلیل ہے کہ عارف محمد خان، طارق فتح اور پشپیندر کلشریستھ سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔ اگر واقعی بات وہ ہوتی جو عارف خان نے ذکر کی ہے، تو گزشتہ ستر پچھتر سالوں میں بھارت کی بے شمار مساجد میں بم حملے ہوچکے ہوتے۔ یہ بھارت ہی ہے جہاں کے امن پسند مسلمان تسلیمہ نسرین اور طارق فتح کو برداشت کرتے ہیں اور جہاں عارف محمد خان بھی سکون سے اپنے ایجنڈے پر گامزن رہتے ہیں۔

عارف خان دیوبند پر الزام لگاتے ہیں کہ ان کے نزدیک اشرف الہدایہ شریعت ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ شاید عارف خان کسی نہ کسی حد تک “مفکر” ہوں گے، لیکن اس اعتراض سے ہمارا اندازہ غلط نکلا۔ اشرف الہدایہ تیس پینتیس سال کے عرصے میں لکھی ہوئی کتاب ہے، جب کہ خود دارالعلوم دیوبند کی عمر ڈیڑھ صدی سے زائد ہے۔ دیوبند کی فکر سے آپ اختلاف کیجیے لیکن خود اپنے ساتھ اتنا بھونڈا مذاق تو نہ کیجیے۔

عارف خان کا الزام ہے کہ لوگ دہشت گرد کیسے بن جاتے ہیں یہ مجھے ہدایہ پڑھ کر اندازہ ہوا۔ اطلاعا عرض ہے کہ داعش اور الشباب دونوں ہی عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیمیں شمار ہوتی ہیں اور ان دونوں سے وابستہ افراد کا فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ ہم عارف خان کی رائے کو بدل نہیں پائیں گے، کیوں کہ ان کی رائے کسی نظریے پر نہیں بلکہ مخصوص ایجنڈے پر مبنی ہے، اس لیے ہم اس کوشش میں نہ پڑتے ہوے ان کو مزید سوالات فراہم کرنا چاہیں گے۔ وہ دیوبند سے یہ پوچھیں کہ ہدایہ پڑھنے کے باوجود ابھی تک مدارس کے فضلاء دہشت گردی میں ملوث کیوں نہیں ہیں؟ وہ یہ پوچھیں کہ مدارس کے فضلاء بھارتی پارلیمان میں کیسے پہنچ رہے ہیں؟ وہ یہ پوچھیں کہ اس کتاب کو پڑھنے کے باوجود مدارس کے فضلاء ملک کا سب سے بڑا چیریٹی نظام کیسے چلارہے ہیں؟ کیسے کیرالا میں بلا تفریق مذہب وملت یہ فارغین مدارس، سیلاب زدگان کو مکانات بناکر دے رہے ہیں؟ وہ آگے بڑھ کر ناگپور سے بھی کچھ سوالات کریں، وہ پوچھیں کہ کیسے ہدایہ پڑھے بغیر دہشت گردوں نے مالیگاوں اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے کیے تھے؟ وہ بجرنگ دل سے بھی سوال کریں کہ اس کے ممبران ماب لنچنگ سے پہلے ہدایہ کے اسباق کہاں پڑھتے ہیں؟ انھیں سوال ہی پوچھنے کا اگر شوق ہے تو اس شوق کو وہ ضرور پورا کریں، لیکن عمر کے اس مرحلے میں انصاف کے (چند ہی سہی) تقاضوں کو تو پورا کریں۔

0 Shares:
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *