یاسر ندیم الواجدی
مشہور مغربی مفکر ڈیکارٹ نے یہ اعلان کیا کہ اس کے وجود کی بنیاد اس کی سوچ اور اس کی فکر ہے۔ گویا کہ خودی کا شعوری عمل سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔ انسان سچائی تک اسی وقت پہنچ سکتا ہے جب وہ مکمل آزاد ہو اور خودی کے خدا ہونے کا قائل ہو۔ ڈیکارٹ نے “میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں” کہہ کر جدید مغربی فلسفہ جس کو آج ہم ماڈرنزم کہتے ہیں کی بنیاد رکھی۔ ماڈرنزم کے بطن سے جو نظریات اور تصورات پیدا ہوئے ان پر کسی دوسری نشست میں گفتگو کی جائے گی۔ آج کی نشست میں جدیدیت کے بطن سے پیدا ہونے والے صرف ایک نظریہ “افادیت پسندی” (جس کو انگریزی میں utilitarianism کہا جاتا ہے) پر مختصرا گفتگو کرنی ہے۔
اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ اخلاق دراصل افادیت سے منسلک ہیں۔ جو چیز انسان کو فائدہ مند لگے گی اسی چیز کا اختیار کرنا اخلاق کہلائے گا۔ اس کے برعکس جو چیز انسان کو اس کی عقل کے مطابق فائدہ مند نہیں لگتی وہ غیراخلاقی قرار پائے گی۔ مغربی معاشرے میں زنا اور جنسی حیوانیت کا اسی لئے زور ہے کہ مغربی انسان اس حیوانیت کو اپنے حق میں مفید سمجھتا ہے اور اسی کو اخلاق قرار دیتا ہے، جبکہ وہ لوگ جو انسان کی نفسانی خواہش کو نکاح سے مقید کرتے ہیں، وہ ان کے اس عمل کو غیر اخلاقی عمل قرار دیتا ہے۔ مغربی انسان نے یہ سمجھا کہ صنفی مساوات اس کے معاشرے کے لیے مفید ہے لہذا اس مساوات کو اعلی اخلاقی قدر قرار دے دیا گیا اور ان معاشروں کو جہاں پر مغرب زدہ صنفی مساوات موجود نہیں ہے، فرسودہ معاشرہ تصور کرلیا گیا۔
صنفی مساوات نے مغربی معاشرے کا جس طریقے سے بیڑہ غرق کیا ہے اس کی ایک تازہ ترین مثال سوشل میڈیا پر چلنے والا نسوانیت پرستوں کا ایک مقابلہ ہے۔ اس مقابلے میں دنیا بھر کی لبرل خواتین اپنی ایسی تصویریں سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہی ہیں جن میں وہ اپنے بغلوں کے بال دکھاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ ان خواتین کا یہ ماننا ہے کہ ایک عورت کو معاشرے میں رائج اس تصور کے خلاف (کہ عورت کی خوبصورتی اپنے جسم کے بالوں کی صفائی کرنے میں ہے) اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق یہ تصور دراصل مردوں کا قائم کیا ہوا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مرد اپنے جسم کے بال صاف نہیں کرتے لیکن عورتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے جسم کے بال صاف کریں۔ ان خواتین نے ڈیکارٹ کے اس اصول پر عمل کیا کہ “میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں”۔ انہوں نے سوچا کہ مغربی مردوں کے برابر آنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بغل کے بال رکھ کر ان کی نمائش کی جائے۔ لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان خواتین نے جس اصول پر عمل کیا وہ بھی دراصل ایک مرد کا ہی دیا ہوا ہے۔
میں نے اس سے پہلے بھی بارہا لکھا ہے کہ انسان کے بنائے ہوے نظریات اور اصولوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں کبھی بھی یکسانیت نہیں ہوتی اور وہ ایک حد پر جاکر ناقابل عمل ہوجاتے ہیں۔ اسی تازہ ترین ٹرینڈ کو لے لیجیے۔ ان خواتین سے اگر یہ کہا جائے کہ مردوں کے صرف زیر بغل بال نہیں ہوتے بلکہ جسم کے دیگر حصوں پر بھی ہوتے ہیں، تو کیا یہ خواتین جن میں ہالی وڈ کی اداکارائیں بھی شامل ہیں اور جن کو جسم کی نمائش کرنے پر ہی پیسے ملتے ہیں، اپنے پورے جسم پر بال اگانا پسند کریں گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ جسم کے ایک ایسے حصے میں بال اگا کر مساوات کو فروغ دینا چاہتی ہیں جو حصہ عام طور سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے؟ کیا یہ خواتین اپنی جنس تبدیل کیے بغیر یعنی عورت ہی رہتے ہوئے سرجری کے عمل کے ذریعے اپنا سینہ مردوں کی طرح کروانا پسند کریں گی؟ آخر کیا وجہ ہے کہ خواتین کا سینہ تو ابھرا ہوا ہو اور مردوں کا نہ ہو؟ کیا یہ چیز اس غیر حقیقی مساوات کے مطابق نہیں ہے جس کو برپا کرنے کے لئے ان لوگوں نے اخلاقی اقدار کو بدل کر رکھ دیا۔ ان خواتین کے لیے یقینا یہ کرنا ناممکن ہے اور یہاں جاکر مساوات کا وہ اصول جو ڈیکارٹ کے مذکورہ بالا قول پر مبنی ہے ٹوٹ جاتا ہے اور اللہ کا قول سچ ثابت ہوتا ہے کہ: ولن تجد لسنة الله تبديلا.