نیشنلزم بنام سیکیولرزم
یاسر ندیم الواجدی
سوشل میڈیا پر پر ایک فوٹو گردش کر رہا ہے ہے جس میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم بنارسی صاحب مدظلہ العالی آر ایس ایس کے مشہور لیڈر اندریش کمار کے ساتھ بیٹھے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس بات کا اندازہ ہے کہ آئندہ چند دنوں تک یہ فوٹو لوگوں کے درمیان گفتگو کا محور رہے گا اور کچھ لوگ جہاں اس کی حمایت کریں گے، وہیں ایک تعداد اس پر تنقید بھی کرے گی۔ لیکن میں سوشل میڈیائی مفکرین کو اس موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے ایک دوسرے موضوع پر غور وفکر کرنے کی دعوت دینا چاہوں گا۔
حالیہ الیکشن میں سیکیولرزم اور نیشنلزم جیسی اصطلاحات کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ بہت سے مسلمان یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ہندوستان میں سیکیولرزم خطرے میں ہے، گویا کہ سیکیولرزم ایک مقدس نظریہ ہے جس کے تحفظ کی ذمہ داری مسلمانوں کے کاندھوں پر لاد دی گئی ہے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سیکیولرزم کی اصطلاح دستور ہند کی بارہویں ترمیم کے تحت 1976 میں دستور میں بڑھائی گئی اور اس کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ حکومت تمام لوگوں کو ان کے مذہبی رجحانات سے قطع نظر کرتے ہوئے برابری کا درجہ دینے کی پابند ہے، حالانکہ دستور ہند کی بنیادی شقوں میں اس بات کی ضمانت پہلے ہی موجود ہے کہ عوام کو ان کے مذہب، زبان اور ان کی علاقائی خصوصیتوں سے صرف نظر کرتے ہوے برابری کا درجہ دیا جائے گا۔ اندرا گاندھی کی حکومت نے اس اصطلاح کا دستور ہند میں کن بنیادوں پر اضافہ کیا تھا یہ الگ بحث ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا سیکولرزم کا کسی بھی درجے میں اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
جدید مغربی تہذیب جو کفر کی انتہاؤں پر پہنچی ہوئی ہے اور جس کا مقصد انسان کو خدا کی بندگی سے نکال کر، اس کی اپنی الوہیت قائم کرنا ہے، سیکیولرزم کو اپنی پہلی سیڑھی قرار دیتی ہے۔ انسان کے خدا بننے کی ابتدا ہی یہاں سے ہوتی ہے کہ مذہب کو انسانی معاملات سے بے دخل کردیا جائے۔ کیا ایسی اصطلاح کا اسلام سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق ہوسکتا ہے؟ جہاں تک مذہبی آزادی کا تعلق ہے، تو وہ تو غیر مسلموں کو عہد خلافت میں بھی حاصل رہی ہیں۔ آج کے دور میں اسرائیل ایک غیر سیکیولر یہودی ریاست ہے جو دستوری طور پر اپنے باشندوں کو مذہبی آزادی دیتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوتا۔ ہندوستان جہاں دستور میں یہ اصطلاح موجود ہے مذہبی آزادی کا کیا پیمانہ ہے یہ سب کے سامنے ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اس دھوکے سے نکلنا ہوگا کہ سیکولرزم کا مطلب مذہبی آزادی ہے۔
البتہ نیشنلزم ایک ایسی اصطلاح ہے جس پر آزادی سے پہلے پندرہ سال تک علمائے کرام کے درمیان گفتگو ہوئی، کتابیں لکھی گئیں، لٹریچر وجود میں آیا اور نیشنلزم کا اسلام سے تعلق ہے یا نہیں ہے ان دونوں نظریات پر فقہی دلائل دیے گئے۔ ایک قومی اور دو قومی نظریے کی بنیاد وہی نظریاتی اختلاف ہے جو آج سے ستر سال پہلے وجود میں آچکا ہے۔ میں اس بحث میں جانا نہیں چاہتا کہ اس اختلاف میں کس فریق کے دلائل مضبوط ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دلائل دونوں طرف ہیں، جب کہ سیکیولرزم کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ مذہب مخالف نظریے کے لیے مذہب سے دلیل نہیں دی جاسکتی ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب آپ ایک “نیشن اسٹیٹ” میں رہتے ہیں تو نیشنلزم کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چارہ کار نہیں رہتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو سیکیولرزم جیسی اصطلاح سے قطع تعلق کرلینا چاہیے اور اس سے کہیں بہتر نیشنلزم کی اصطلاح کو اختیار کرنا چاہیے۔
اب آئیے مہتمم دارالعلوم دیوبند کی آر ایس ایس کے سینیر لیڈر اندریش کمار کے ساتھ میٹنگ پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ آر ایس ایس ایک نیشنلسٹ تنظیم ہے، لیکن اس ملک کے عام ہندو یہ نہیں جانتے کہ کروڑوں مسلمان نیشنلزم کی بنیاد پر ہی پاکستان کے دو قومی نظریے کو ستر سال پہلے مسترد کرچکے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ آر ایس ایس کی نیشنلزم اپنی تعریف کی رو سے عوام کو برابری کا درجہ دینے سے قاصر ہے۔ اس تعریف کے مطابق بھارتی ثقافت کو اختیار کرنے والے ہی نیشنلسٹ ہوسکتے ہیں، مسلمان اور عیسائیوں کی ثقافت بھارتی نہیں ہے، لہذا وہ نیشنلسٹ بھی نہیں ہیں۔
لیکن اگر ایک فریق اپنے کو نیشنلسٹ کہے اور دوسرا سیکیولر تو دونوں کے درمیان مذہبی آزادی اور انسانی اقدار پر کس طرح گفتگو ہوسکے گی جب کہ دونوں فریق کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں ہے؟ البتہ اگر دونوں فریق اپنے کو نیشنلسٹ ثابت کرتے ہوں، خواہ تعریف میں فرق ہو، تو کم از کم ایک قدر مشترک موجود ہے، اس لیے گفتگو کی گنجائش ہے۔ کچھ لوگ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ آر ایس ایس سے گفتگو کیوں کی جائے؟ تو یہ سوال وہی کرے گا جس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جہاں فرعون کو دین کی دعوت دی تھی وہیں بنو اسرائیل کے لیے فراعنہ سے ہر طرح کی آزادی پر بھی گفتگو فرمائی تھی۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ آر ایس ایس خود مسلمانوں سے گفتگو کرنا چاہتی ہے اور ہم نے اس کو شجر ممنوعہ قرار دیا ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آر ایس ایس دودھ کی دھلی تنظیم ہے، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ گفتگو فریق مخالف سے ہی کی جاتی ہے۔
جن لوگوں نے آر ایس ایس کے سپریمو موہن بھاگوت کی گزشتہ سال وویکانند صدی کے موقع پر شکاگو میں ہونے والی تقریر سنی ہے، وہ واقف ہیں کہ بھاگوت نے اپنے اکابر سے ہٹ کر بہت سے نظریات پیش کیے تھے جن میں نیشنلزم کا نظریہ بھی تھا۔ آر ایس ایس سے ہمارے اداروں اور تنظیموں کی گفتگو نیشنلزم کی تعریف پر ہی ہونی چاہیے کیوں کہ اختلاف کی پہلی بنیاد یہی ہے۔ دین کی دعوت کبھی بھی علیحدگی اختیار کرکے نہیں ہوسکتی، بلکہ دعوت کا بنیادی اصول گفتگو ہے اور وہ بھی “قول لیّن” کی صورت میں۔ البتہ آریہ سماج جیسے لوگ جو گفتگو مخالف ہیں اور جن کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور اس کی تعلیمات پر اعتراض کرنا ہے، تو پھر قرآن نے ہمیں مجادلہ حسنہ کا بھی حکم دیا ہے۔
نیشنلسٹ تنظیموں کے ساتھ گفتگو کرنے کے حوالے سے مولانا محمود مدنی دامت برکاتہم کی کوششوں کو سراہا جانا چاہیے جو ایک لمبے عرصے سے اس میدان میں تنہا تمام تنقیدوں کو برداشت کرتے ہوے کام کررہے ہیں۔ اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور اندریش کمار کی ملاقات کا بھی استقبال ہونا چاہیے، البتہ مسلم تنظیموں اور اداروں کو ایک واضح اسٹریٹیجی طے کرکے ہی یہ گفتگو کرنی چاہیے، مذاکرات بغیر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے ہوے، اپنے اصول و مبادی سے سمجھوتہ کیے بغیر، برابری کی بنیاد پر ہوں تو ان شاءاللہ پوری ملت اسلامیہ ساتھ دے گی، ورنہ ملاقات برائے ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔