وقف بورڈ کی فروخت
یاسر ندیم الواجدی
وقف بورڈ کا بکنا کوئی قابل تعجب بات نہیں ہے، جب سی بی آئی فروخت ہوسکتی ہے تو وقف بورڈ کے ذمے داران کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے وکیل جناب فضیل ایوبی صاحب (جو کہ مسلم فریق کے وکلاء میں شامل ہیں) کے مطابق عدالتی کارروائی کے آخری دن سنی وقف بورڈ کی جانب سے کیس سے علیحدگی کی درخواست دائر کرنے پر عدالت میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی جب کہ قانونا اس اقدام کا کورٹ کے سامنے آنا ضروری ہے۔ البتہ وقف بورڈ کے چیرمین فاروقی عدالت میں موجود تھے اور وہ اپنے اقدام کو تحریری شکل میں پیش کرکے چلے گئے۔
یہ واضح رہنا چاہیے کہ سنی وقف بورڈ حق ملکیت معاملے میں اگرچہ اہم مدعی ہے لیکن اقبال انصاری، حاجی محبوب اور جمعیت علمائے ہند بھی حق ملکیت کے معاملے میں مدعیان ہیں، فرق یہ ہے کہ وقف بورڈ اصل ہے اور بقیہ “ریپریزنٹیٹیو” کی حیثیت سے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ مسلم فریق نے بہترین انداز سے یہ کیس لڑا ہے اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آئے۔ اس لیے سنی وقف بورڈ کو آخری موقع پر کیس سے علیحدہ کرکے مسلم موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چند روز پہلے توقیر رضا خان نیز علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کی قیادت میں کچھ مسلمانوں نے مصالحت کی صدا بلند کی، تو اس وقت کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ان کا یہ اقدام شاید خلوص پر مبنی ہو، لیکن اب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان لوگوں کو حکومت نے اس لیے کھڑا کیا تھا تاکہ وقف بورڈ کے اس اقدام کو مسلمانوں کے مطالبے کا نتیجہ قرار دیا جاسکے۔ مودی حکومت سے اسی طرح کے سازشی اقدامات کی توقع کی جاسکتی ہے۔